پریشانی تو ختم ہوئی!!!

0
491
ماجد جرال
ماجد جرال

ماجد جرال

سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے ہر چیز متنازعہ کیوں ہوتی جارہی ہے۔انتخابات کو دیا قانون سازی سے متعلق کوئی معاملہ، احتساب اور انصاف عام آدمی سے لے کر ججز تک، مہنگائی سے لے کر حکومتی کارکردگی تک، غرض سب چیزیں آپ کو تنازعات میں الجھی ہوئی نظر آئیں گی۔ موجودہ حکومت کی پالیسیاں وہ بہتری لانے میں معاون ثابت نہیں ہو رہیں جن کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، ایک دن کابینہ مہنگائی کم کرنے کے معاملے پر پابندی عائد کرتی ہے تو دوسرے روز بھی کسی نہ کسی چیز کی قیمت آسمان کو چھونے لگتی ہے۔ حکومت انتخابات شفاف بنانے کے لیے قانون سازی کا نعرہ بلند کرتی ہے تو دوسرے دن ہی ڈسکہ سے بکسہ غائب ہو جاتا ہے، ججز اپنے ہی احتساب کا اعلان کرتے ہیں تو قاضی فائز عیسیٰ کی صورت میں ایک تنازعہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ حکومت اپنے اتحادیوں سے کسی قسم کے معاملات خراب نہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے تو دوسرے ہی دن اہم حکومتی اتحادی جماعت اسلامی وفاق میں پی ڈی ایم کے امیدوار کو سینٹ ووٹ دینے کا اعلان کر دیتی ہے۔ غرض کہ آپ جس جانب بھی دیکھیں آپ کو الجھن ہی الجھن نظر آئے گی۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم کسی دائرے میں بھاگتے جا رہے ہیں، تمام اسٹیک ہولڈرز دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ منزل پانے کے قریب ہیں لیکن دائرہ ہے کہ ختم ہونے کا نام لیتا ہی نہیں، عوام کو ایک ہی چیز سے غرض ہے کہ کسی طرح ان کے کھانے پینے کی اشیاءکی قیمتیں ایک متوازن سطح پر آجائیں، انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کس پروجیکٹ سے 6 ہزار ارب روپے کا منافع ہو رہا ہے اور اگر منافع ہو رہا ہے تو اس پر تالی بجے یا نہ بجے۔لوگوں کی توجہ کا مرکز ایک بار پھر یہی ہے کہ سالوں میں ان کو مفت ادویات کی فراہمی کا جو قطرہ بہہ رہا تھا، وہی ان کو دوبارہ میسر آجائے، انہیں اب اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ پاکستان دل میں بنانے والے اسٹنٹ خود بنانے کی صلاحیت سے مالا مال ہوچکا ہے۔پاکستان میں غریب آدمی کو اب فکر ہے تو یہ کہ وہ اپنے بچوں کی سکول فیس کسی طرح ادا کر ے، کیا ہے اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے کو این آر او دیں یا نہ دیں۔حکومت کو اب لوگوں پر اعتراض ہے کہ وہ انہیں 70-75 سال کا گند دو تین سالوں میں ختم کرنے پر کیوں مجبور کررہے ہیں۔حکومت کو اعتراض ہے کہ احتساب کے لیے ملزمان تعاون نہیں کر رہے۔حکومت کو اعتراض ہے کہ نیچے چوری ہو رہی ہے تو اوپر بیٹھے وزیراعظم کو چور نہ کہا جائے۔حکومت کو اعتراض ہے کہ لوگ ہنڈی کے ذریعے کیوں پیسے بھجوا کر ملکی زرمبادلہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ حکومت کو اعتراض ہے کہ لوگ بجلی مہنگی ہونے پر کیوں چیخ چلا رہے ہیں۔حکومت کو اعتراض ہے کہ ادویات مہنگی کر کے بھاگ جانے والے وزرا کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر کیوں روز طعنہ زنی کی جاتی ہے۔ حکومت کو اعتراض ہے کہ ملک کے لوگ ہیں اچھے نہیں ہیں۔ غرض ماضی میں جو اعتراضات کی ایک فہرست عوام کے ہاتھ میں ہوتی تھی ، وہ ماشاءاللہ اب حکومتی وزراءکے ہاتھ میں ہے۔ حسن مرتضیٰ پیپلز پارٹی کے رکن پنجاب اسمبلی ہیں، محترم اپنی تقاریر میں اپنے دلچسپ لطائف کے باعث کافی شہرت کے حامل ہیں، گزشتہ دنوں انہوں نے اپنی تقریر میں ایک سردار کا لطیفہ سنایا جو کہ بھینس کے لمبے سنگ دیکھ کر ہمیشہ سوچتا تھا کہ اگر اس میں ٹانگیں پھنس گئیں تو کیا ہوگا، ایک روز آخر وہ خودی اپنی ٹانگیں پھنسوا کر تڑوا بیٹھنے کے بعد سوچتا ہے کہ ٹانگوں کی خیر ہے مگر چلو یہ پریشانی تو ختم ہوئی کہ ٹانگیں پھنس گئیںتو کیا ہوگا۔ واقعی ٹینشن تو ختم ہوئی کے ملک میں کوئی دوسرا ایماندار شخص آتا تو کیا ہوتا اور غالب نے بھی کیا خوب کہا تھا۔
“مجھ کو مروایا میرے ہونے نے۔
میں نہ ہوتا تو کیا ہوتا
٭٭٭ا

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here