ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی
آج میں امریکہ میں رہنے والوں کے بارے ایک اہم ترین حقیقت بیان کرنے جارہا ہوں۔ ان سطور کے بعد مجھے کوئی پھولوں کی سیج نہیں دی جائیگی بلکہ راستے کے کانٹوں میں اضافہ ہوگا نہ ہی میرے راستے میں کہکشاں بچھائی جائیگی بلکہ نوکیلے پتھر میرے استقبال کیلئے سجائے جائینگے جب سے میں حوزہ وی کتب کی جنونانہ تحریر و تقریر میں لگا میں نے ایک طرف روحانیات کی عمومی خدمت کو ترک کردیا تھا اور باقاعدہ کالم نگاری کو بھی خیر آباد کہہ دیا تھا۔ ان دونوں کو میں خلع یا مبارات یا بائن سے تو تشبیہ نہیں دیتا تاہم رجعءکے مشابہ ضرور قرار دیتا ہوں۔ اب وقت آگیا ہے کہ 47 سالہ دینی تعلیم کی اہمیت اور 57 سال کی دنیاوی تعلیم کا کچھ ثمر نکلا کہ دونوں طرف تعلیم کی میکسیمائزیشن کے ریکارڈ قائم کر دیئے۔ اب چاہتا ہوں دوبارہ سے آج دو مارچ 2021 سے باقاعدہ کالم نگاری کی جائے اور روحانی خدمت بھی شروع کی جائے۔ اسی سلسلے کی کڑی کا کالم ہذا ہے جو آپکی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔امریکہ میں مقیم مختلف رنگ و نسل ،مذہب و فرقہ ، علاقہ و منطقہ ، فکرو عمل ، نظریہ و عقیدہ، سوچ و اپروچ، کام و کاج، رسم و رواج، ثقافت و فراست، نام و مشام، بام و در، کوچہ و نگر، دیہات و شہر اور بود و باش کے لوگ آباد ہیں۔ انہیں مذہبی و سیای الجھنیں کم درپیش ہیں اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے صلاحیت بام عروج پر ہے۔امیر و غریب، بڑے چھوٹے، باس ایمپلائی، استاد شاگرد، والدین اولاد، بہن بھائی، کالے، گورے، آقا و غلام، طبیب ،مریض اور اپنے پرائے میں فاصلے کم ہیں۔ میری نظر میں امریکہ دنیا میں رہائش کی سب سے بہترین جگہ ہے۔ ہمارے بہن بھائیوں کو قدر کرنی چاہئے ،مذہبی و سیاسی آزادی قابل مثال ہے۔ مراعات کا کیا کہنا۔ نظام تعلیم بہت ہی اعلیٰ، طبی سہولیات قابل رشک، اشیائے خور و نوش کی بے بہا فراوانی، پیدائش دے لیکر قبر تک کی سہولیات فقید المثال ان سہولیات سے مزین ہمارے بہن بھائی، یا حتیٰ غیر مسلم بت پرستوں میں بتوں سے زیادہ خوف گیارہ نمبر کا ہے۔ خدا پرست دعوے میں تو زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں مگر انکے دل میں اللہ کا خوف اتنا نہیں جتناگیارہ نمبر کا ہے۔ تثلیثوں کے قائل تثلیثوں سے زیادہ گیارہ نمبر سے ڈرتے ہیں۔ جنکے گھروں میں قرآن ہے وہ قرآن پر عملی طور پر کم اور گیارہ نمبر پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔تورات، زبور، انجیل، گیتا اور سری کال والوں کا بھی یہی حال بے حال ہے۔ نذر و نیازوں والے بھی ہر معجزہ کی امیدوار ہیں جو کہ بالکل درست ہے تاہم نذر والی ہستیوں کو اس لیول پر نہیں رکھتے کہ ان ذوات مقدسہ کی خاطر وہ گیارہ نمبر کی قربانی دے دیں۔ میاں بیوی معمولی سی رنجش پر ماتھے پر آنکھیں رکھ لیتے ہیں۔ اولاد بوڑھے ماں باپ کی مہربانیوں کو بالائے طاق رکھ کر انتقام پروری پر اتر آتی ہے۔ بہن، بھائی، دوست، کزن اپنے پرائے مذہب اور کلچر چھوڑ کر گیارہ نمبریے بن گئے ہیں۔ وہ گیارہ نمبر کو حلال مشکلات سمجھ بیٹھے ہیں۔ وہ اسی نمبر سے توقع انقلاب سمجھتے ہیں۔ وہ اسی نمبرسے رشتہ ناطہ رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے حافظے میں روحانیت سے زیادہ یہی نمبر فیڈ ہے۔ انہیں کوئی نمبر متاثر نہ کر سکا نہ 1 نمبر نہ 3 نہ 4 نہ 5 نہ 7 نہ 12 نہ 14 نہ 72نہ 313 نہ 786 نہ 3 ہزر نہ پانچ ہزار نہ 6332 نہ 6666 اور نہ ہی ایک لاکھ چوبیس ہزار۔ بس انکی سوئی 11 نمبر پر اٹک گئی ہے۔ بلا تشبیہ جیسے تھانوں والوں کی توجہ 10 نمبر یوں پر ہوتی تھی ویسے امریکیوں کی توجہ 11 نمبر پر ہے۔ یا اللہ یہ کیا مشترکہ میراث ہے جو سب کے نصیب میں آرہی ہے، الا شذ و ندر جیسے ہم اصول کے طالبعلم یہ کلیہ پلے باندھے ہیں۔ مامن عام الا و قد خص مگر اکثریت ایک ہی لاٹھی سے ہانکی جارہی ہے ،اکثر ایک ہی نمبر کے غلام نظر آتے۔ امریکہ میں ماں باپ اور اولاد سے، بھائی بہنوں سے، میاں بیوی سے۔ اعزا و اقرباءسے، منہ بولوں سے، خونی رشتہ داروں سے، رضائی رشتوں سے، لوکل و مہاجر سے اور جان سے عزیزوں سے جو مضبوط رشتہ ہے وہ گیارہ 11 کا ہے۔ آئیں دیکھیں یہ کو نسا عدد ہے جس نے سب رشتے پیچھے چھوڑ دیئے جو مساجد و مراکز، کلیساو¿ں و کنیساو¿ں، ٹمپلز و گردواروں میں علامت خوف ہے جسکے باعث حرج مرج ختم ہو جاتا ہے۔ جس سے سب ڈر رہے ہیں جسکو سب مشکلات کے حل کے طور پر جانتے ہیں۔ میرے بزرگو و عزیزو 11 کا عدد 911 ہے نو اور دو گیا رہ۔یا اللہ ہمارے مسلمان بھائی بہنوں میں 911 سے زیادہ اللہ و رسول و برگزیدہ ہستیوں کا خوف پیدا کر آمین یا رب العالمین۔ یہ سطور میں نے آج بروز منگل 2 مارچ کو جہاز میں لکھی ہیں آج کورونا ملعونہ کے ورود غیر مسعد کے بعد ایک سال بعد جہاز میں قدم رکھا۔ دل بہت اداس ہے اسلئے کہ اپنے بہت ہی پیارے چھوٹے بھائی اور شاگرد مخلص مومن مولائی اور عزادار حسین میر سید حسن علی نقوی ابن میر سید ناصر علی نقوی کو دفنا کر آیا ہوں آخری تلقین پڑھنے سے اب تک تقریباً نمازو تلاو ت و فاتحہ کے علاوہ چار گھنٹے آنسووں کی برسات جاری رہی اور جہاز میں دو گھنٹے میں یہ تحریر مکمل ہوئی۔
وما توفیقی الا باللہ
٭٭٭