بزرگان و عزیزان ! آجکل شیطان کا بدتر حربہ سوشل میڈیا ہے اور اس میں سے بھی بدترین حربہ وٹس ایپ گروپ ہے۔ اگرچہ اسکے فوائد بھی بیش بہاء ہیں تاہم نقصان کی شرح قابل کم نہیں ہے جو احباب وٹس ایپ گروپس میں شرافت و دیانت سے خدمت دین و قوم کر رہے ہیں انکی جتنی تعریف کی جائے کم ہے تاہم وٹس ایپ گروپس کے اکثر ایڈمنزاور ممبران خود کو سیاہ و سفید کا مالک سمجھتے ہیں ، اپنی بونگیوں کو حرف آخر جانتے ہیں ۔اس وقت عموماً وٹس ایپ پر جس قدر جھوٹ بولے جا رہے ہیں انکا کوئی حد و حساب نہیں۔ اب تو شیطان بھی گھبرا گیا ہوگا کہ یہ کیا مخلوق ہے ؟ جو مجھے بھی پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ وہ یہ بھی سوچ رہا ہوگا کہ مجھ چھوڑو سے بڑے چھوڑو وٹس ایپ گروپس میں براجمان ہیں۔ گروپس کے اکثر ایڈمنز و شرکاء مغرور ایسے کہ فرعون شرما جائے۔ بخیل ایسے کہ قارون کو منہ چھپانے کی جگہ نہ ملے جبکہ بدعمل بھی انتہا کے ہیں ۔لعان ایسے کہ بنی اُمیہ شرما جائیں، فحش کلام ایسے کہ بنی عباس چھپنے لگیں۔ بچپن میں سنا تھا جھوٹ اتنے بولو کہ سچ لگے اب ہم اسکے شاہد ہیں۔ انہیں نہ خُدا کا خوف ہے نہ رسولۖ و اہل بیت کا۔ انہیں نہ ماں باپ کا حیا ہے نہ بڑے چھوٹے کا۔ اگر یہ ایک دن کی پوسٹ اپنے بیوی ، بچوں کو دکھا دیں تو وہ ان پر تف کریں۔ انکی نظر میں نہ کسی دن کا تقدس ہے نہ کسی ماہ کا۔ نہ کسی تاریخ کی اہمیت ہے نہ ثقافت کی، نہ سماج کو خاطر میں لاتے ہیں نہ معاشرے کو ۔خوشی کے دن ہوں یا غمی کے یہ بغیر بریک کے چلتے ہیں۔ انہیں نہ موت کا ڈر ہے نہ قبر کا۔ انکے پاس نہ ہائی جین کا وقت ہے نہ روحانی ارتقاء کا۔ نہ انہیں نماز کی فکر ہے نہ روزے کی ، نہ انہیں قرآن کی فکر ہے، نہ ہی حدیث کی۔ نہ مجلس کی ، نہ محفل کی ، نہ انہیں مرحوم کا خیال ہے نہ زندہ کا۔ یہ صرف بدتمیزی، بد تہذیبی ، بد گفتاری، بد کلامی ، بدنامی اور بے ایمانی کے سبق پڑھے ہوئے ہیں۔ نہ انکی اردو صحیح نہ انگلش ٹھیک۔ انکی اردو سن کر غالب کی روح بھی تڑپ جائے اور انگلش سے شیکسپئر سراپا ئے احتجاج ہو جائے۔ مجھے مرزا شناور کا ایک شعر یاد آگیا جو میرے مضمون کی روح کا عکاس ہے کب ہے عریانی سے بہتر کوئی دنیا میں لباس یہ وہ جامہ ہے جسکا نہیں اُلٹا سیدھا ۔اس حمام میں ننگوں کی بھرمار سے شرم ناپید ہے۔ حیا مفقود ہے ، یہ وٹس ایپئے قبر ستان میں بھی موت سے نہیں ڈرتے، انہیں کورونا بھی خائف نہ کر سکا۔ ان کے کچھ ممبرز مر گئے انکی موت بھی انہیں سیدھا نہ کرسکی یوں تو گھبرا کے کہتے ہیں کہ مر جائینگے مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائینگے ۔یہ مسجد و مرکز میں بھی دیدہ دلیر ہوتے ہیں۔ انکو فاتحہ خوانی میں بھی شرارتیں سوجتی ہیں اور مردہ خانوں میں بھی خباثتیں یاد ہوتی ہیں۔یہ کسی کی قل خوانی ہو یا قرآن خوانی ہو وہاں اپنی دوکان ضرور لگائیں گے اور پھر سماچار رات کو ڈھائی بجے اپنے گروپس میں ڈالیں گے ، انہیں نہ اپنی عاقبت بخیر کی فکر ہے نہ ہی اولاد کی ، نہ انہیں اپنے مرحومین کی بخشش کی فکر ہے نہ بیماروں کی شفا یابی کی۔ یہ آپ کو نماز جمعہ و جماعت میں نہیں ملیں گے، جلسہ و جلوس میں غائب ہونگے۔ روزمرہ کی سروسز میں آپ کو نہ ملیں گے ، جنازوں سے غائب، تدفین سے غیر حاضر، نہ احتجاج میں شامل نہ جدوجہد میں شریک۔ نہ فکر یتیم نہ بیوگان کی کفالت ، تکبر و حسد و غیبت و تہمت میں اٹے ہوئے۔ بے پر کی اڑانا انکی عادت ثانویہ بن چکی ہوتی ہے۔ یہ ظاہر ایک دوسرے کے دشمن ہوتے ہیں اور شرفا ء کے خلاف اندر سے اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔دوسروں کے فون ہیک کرنا ان کا مشغلہ ہوتا ہے۔ دوسروں کے فون بغیر اجازت کے ٹیپ کرنا ان کا وطیرہ ہے۔ فیک آئی ڈیز بنانا انکی روش ہے۔ احسان فراموشی انکی فطرت ہے۔ محسن کشی انکی شناخت ہے۔ ہر ایک کی بدخواہی ان کا طرہ امتیاز ہوتا ہے۔ شکایت بازی انکا حیلہ روزگار ہے۔ ان کا مشن ننگ و عار ہے، دیر سے سونا دیر سے اُٹھنا ان کا شعار ہے۔ اس صدی میں انسانیت کیلئے کسی ایسے گروپ میں ہونا ہی ننگ عار کیلئے کافی ہے جس میں شریفوں کی پگڑیاں اُچھالی جاتی ہوں۔ لوگوں کو ماؤں بہنوں کی گالیاں دی جاتی ہوں۔ تہمتوں کے بازار سجے ہوں اور غیبتوں کے میدان لگے ہوں۔ الزام تراشی جہاں بام عروج پر ہو ۔ میری اس تحریر کو سامنے رکھ کر بتائیں کہ کیا آپکے زمانے کے مالک و وارث آپکے گروپ میں ایک منٹ رہنا پسند کرینگے؟ جب آپکے گروپ میں ایک عالم نہیں رہ سکتا تو آپ کے گروپ میں معصوم نمائندہ الٰہی کیسے رہے گا ؟ ایک مولانا کو آپ برداشت نہیں کر سکتے ؟بجائے دوسروں کی تذلیل کے اپنی تکریم کی فکر کیجئے۔ دوسروں کے عیب اچھالنے کی بجائے توبہ کی سبیل کیجئے۔ یہ نہ سمجھئے فیصلہ بروز قیامت ہی ہوگا وہ تو بڑا ہوگا تاہم عدل و انصاف فقط حشر پہ موقوف نہیں زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے مجھے ایک محترم وٹسایپئیے جنازے کی بعد ایک قبرستان میں ملے اور فرمانے لگے ڈاکٹر صاحب ہم ہر ایک کی ایسی تیسی پھیر رہے ہیں اور ہمارا تو کوئی کچھ بگاڑ نہیں رہا ہے ؟ میں نے کہا آج چاند کی کونسی تاریخ ہے ؟ انہیں معلوم نہیں تھا ، میں نے کہا اس بار جمعہ پڑھا تھا ؟ جواب نفی میں تھا ، آج کی نماز فجر پڑھی تھی ؟ تو جواب ندارد، آج قرآن پڑھا تھا ؟ پتہ چلا بچپن میں پڑھا تھا، آج بڑا اہم سنتی روزہ رکھا تھا ؟تو فرمانے لگے ہم فرض ہی نہیں رکھتے! میں نے کہا اللہ آپکو اور کیا سزا دے ؟ جب انسان عبادت ہی سے محروم ہو جائے تو سزا تو مل گئی ہے ۔ سمجھے یا نہ سمجھے خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد جو چاہے آپکا حسن کرشمہ ساز کرے یہ بہکے ہوئے ایڈمن اور ممبران اس قدر غافل ہیں کہ اپنا کیا دھرا تھوڑی دیر میں مٹانے جائیں تو مٹتا نہیں ہے اور یہ تو یہ ہر دشمن دین تک یہ پہنچ چکا ہوتا ہے۔ اے وٹس ایپئو ! سوچو ! کل جب تم نہیں رہو گے اور قبر میں پڑے ہوگے۔ کوئی تمہاری قبر پر آکر فاتحہ بھی نہیں پڑھے گا اور تمہیں جھوٹی پوسٹوں پر تازیانوںْکا سامنا ہوگا تو کیا کروگے ؟ کعبہ کس منہ سے جاؤگے؟ غالب شرم تم کو مگر نہیں آتی ، یہ بھی یاد رکھو مظلوم کی آہ عرش ہلا دیتی ہے یہ ہاتھ جنسے اہانت آمیز پوسٹیں ڈال رہے ہو یہ شل بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ زبانیں جن سے گالیاں دے رہے ہو ان پر فالج بھی پڑ سکتا ہے۔ دوسروں کو تکلیفوں کے باعث تمہاری زندگی کم بھی ہو سکتی ہے۔ سائبر کرائم سے ڈرتے ہو؟ اللہ سے نہیں ؟ پولیس سے ڈرتے ہو منکر و نکیر سے نہیں ؟ اینٹی ڈیفیمیشن سے دبتے ہو عذاب الہی سے نہیں ؟ یا تو گروپ تحلیل کرکے اللہ توبہ کرو اور جن جن کو ستایا ہے انسے معافی مانگو یا توبہ کرکے گروپس میں آج کے بعد موازین شریعت کو ملحوظ خاطر رکھو یا پھر دنیا و آخرت میں عذاب الٰہی کیلئے تیار ہو جاؤ مانیں نہ مانیں یہ آپکو اختیار ہے ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جائینگے، ایڈمنز لگتا ہے ممبران سے کہہ رہے ہوں
ہم کو دعائیں دو تمھیں قاتل بنا دیا
میں نے تو جب سے گروپ چھوڑے ہیں
راحت میں ہوں اور یہ شعر خاطر میں ہے
بلبل نے آشیانہ جب اپنا اٹھا لیا
اسکی بلا سے بوم بسے یا ہما رہے
میں وٹس ایپ کا وکٹم ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ مجھے دین کی خاطر ستایا جا رہا ہے میں اپنے کرم فرماؤں سے اتنا کہونگا اور کوئی طلب اپنائے، زمانہ سے نہیں مجھ پر احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا وٹس ایپئو ! اسی اسی سال تک ہمارے جد مولی علی پر منبروں سے سب و شتم کرنے والے ہار گئیبنو امیہ اور بنو عباس رسوا ہوگئے ، داعش، القاعدہ ہار گئی، طالبان و سپاہ صحابہ ہار گئی۔ شاہ ایران ،صدام و قذافی و ضیا گئے تو تمہاراحشر بھی جلد بساط لپیٹے گا اگر تم قابل ہدایت ہو تو تمہیں ہدایت ہو ورنہ عبرت روزگار بنو !!!بس تمہیں یہی پیغام ہے اپنے قول وفا کو بھول گئے تم تو بالکل خدا کو بھول گئے ۔وٹس ایپئو ! میرا پیغام پلے باندھ لو، خیرہ نہ کر سکا مجھے جلو دانش فرنگ سرمہ ہے مری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف یہ سطور تہجد کی ادائیگی سے قبل لکھی ہیں ۔ یہ ہدایت کیلئے لکھی گئی ہیں، کسی پر ذاتی تنقید کیلئے نہیں ،اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
آجکل وٹس ایپ گروپس کے بعض ایڈمنز (سارے نہیں )جہنم خریدنے کا بڑی تیزی سے دھندہ کر رہے ہیں کبھی لگتا ہے جہنم کی لوٹ سیل میں ہم بھی رگڑ میں نہ آجائیں انکے سامنے کسی کی عزت محفوظ نہیں ہوتی ہے۔ یہ شرفاء کو دھمکیاں دیتے ہیں۔ ایجنسیوں میں شکایت بازی کرتے ہیں۔انہوں نے اپنے ٹاؤٹ رکھے ہوئے ہیں۔ انکے نزدیک نہ مذہب کی کوئی قدر ہوتی ہے نہ برادری کی۔ نہ چھوٹے بڑے کا حیا کرتے ہیں نہ رواداری کے قائل ہوتے ہیں۔ یہ اپنے آپکو یا تو فرعون سمجھتے ہیں یا نمرود یا شداد یا چنگیز یا کالا باغ یا ڈھرنالیا یا بالی یا سعادت بلوچ۔ یہ اپنی عاقبت سے بھی غافل ہوتے ہیں یہ بھی نہیں سوچتے ہیں کہ انکے ان گناہان بے لذت کی سزا انکی اولادوں کو مل سکتی ہے، انکے اہل خانہ کو مل سکتی ہے، انکی عمر گھٹ سکتی ہے ، انہیں فالج ہو سکتا ہے، کینسر ہو سکتا ہے ، کورونا سے مر سکتے ہیں، دل کا جان لیوا دورہ پڑ سکتا ہے ، فقر و فاقہ کے عذاب میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔م، انکو نہ محفل یاد ہوتی ہے نہ مجلس نہ قرآن نہ حدیث، نہ خوشی نہ غمی، نہ امر نہ مبارکباد نہ تعزیت مثلاً آج یوم ولادت حضرت علی اکبر تھا ،مجال ہے ایک تہنیت کا پیغام آیا ہو۔ بد زبان ایسے کہ بنی اُمیہ شرما جائیں۔ لعنت کرنے والے ایسے کہ بنی عباس منہ چھپائیں۔ طعن و تشنیع ایسی کریں کہ بنی اسرائیل کی قبروں میں آگ لگ جائے۔ انکی نشانیاں یہ ہیں کہ نہ یہ کسی ایک جمعہ میں نظر آئینگے نہ کسی جماعت میں ، نہ یہ زکواة دینگے نہ خمس، نہ صدقہ نہ خیرات نہ نمازی نہ روزہ دار ، نہ زاہد نہ شب زندہ دار، نہ نادم نہ تائب، بد اخلاق ایسے کہ گھن آئے۔ ان کو برش کرنے کا وقت بھی نہیں ملتا۔ بہت ساروں کو تو نہانے کی فرصت نہیں ہوتی ہے۔ میں نے بلامبالغہ انکے تن پر ایک ایک شرٹ برسوں دیکھی ہے۔ میتیں اُٹھ رہی ہوں تومرحومین کے خدمت گزاروں کو ذلیل و رسوا کرتے ہیں۔ اگر غلطی سے آ بھی جائیں تو جنازے یا فیونرل ہوم یا قبرستانوں میں غیبت کرینگے۔ زندہ و مردہ سب کی، جھوٹ بولیں گے، بازاری زبان استعمال کرینگے ایک دوسرے پر آوازیں کسیں گے۔ تہمتیں لگائیں گے ،علماء کی مخالفت ان کا شیوہ ہوتا ہے۔ شرفاء کی پگڑیاں اُچھالنا انکا فرض اولین ہوتا ہے کوئی کسی ایجنسی کا ٹاؤٹ ہوتا ہے تو کوئی کسی ملک کے پیرول پر ہوتا ہے۔ انکو کسی جوان کی موت پر بھی رونا نہیں آتا۔انکو آپ کبھی ذکر حسین میں بھی روتا نہ دیکھیںگے۔ انہیں آپ کسی مذہبی سروس میں کبھی نہیں دیکھیں گے اور آئیں گے تو بھی دادا گیری کیلئے۔ ان کا آجکل کام سنائپر بن کر کمیونٹی کو ڈیمیج کرنا ہوتا ہے۔ ہیکر یہ ہیں تو چور یہ ، طلاقیں یہ کروائینگے۔ گھر یہ تڑوائینگے۔ قرآن یہ نہ پڑھینگے۔ نماز کے ٹائم پر انکی پیغام سرانیاں چل رہی ہوتی ہیں۔ یہ ایسے عادی مجرم ہیں کہ قیام نماز میں فون اُٹھا رہے ہوتے ہیں۔ اگر آپ کہیں کہ یہ ایڈمن صاحب تھوڑا سا قرآن پڑھیں تو وہ لڑنے مرنے پر آجاتے ہیں۔ مسجدوں اور مراکز کے باہر انکے گینگسٹر کھڑے ہونگے۔ بڑے بڑے پھنے خان کو پوچھیں تو وہ بتائیگا رمضان میں نہ زکواةدیتا ہے نہ محرم میں خمس۔ نہ صدقہ دیتا ہے نہ خیرات ، نہ احترام والدین نہ صلہ رحمی، یہ جذبہ خیر خواہی سے عاری ہوتے ہیں ان میں مدارات نا پید ہوتی ہے۔ان پر کوئی کرے تو ناموس کی گالیاں ناصحین کو بکتے ہیں۔ آج کل دونمبر کے وہ مولوی نما لگتے ہیں اور مین اسٹریم سے ہٹ کر لوگوں کو فرقہ واریت کا پجاری بناتے ہیں۔ ہر ایک کی انہیں ڈگری کی کاپی چاہیے اپنا پرائمری کا سرٹیفکیٹ دکھانے کو تیار نہیں۔ دوسروں کے اجتہاد پہ جاہلانہ تبصرہ اور خود کلمہ شہادت نہیں جانتے۔ دیگران را نصیحت اورخود میاں فصیحت بنے ہیں۔ خود نو معاشرے کے دھتکارے ہوئے ہوتے ہیں ، ہمیں اپنی حرکتوں سے بد نام کرکے بلیک میل کرنا چاہتے ہیں۔ اب تو انہوں نے غیر مذہب کے لوگوں کو گروپس میں ڈالنا شروع کیا ہے اور خود غیروں کے گروپس میں ہماری قومی پوسٹیں شیئر کرکے ہمارے عقیدہ اور عمل کو بدنام کررہے ہیں اگر تو یہ نادانی میں کررہے ہیں تو اللہ معاف کرے اور اگر جان بوجھ کر کر ر ہے ہیں تو اللہ غرق کرے۔ آجکل انکے بعض شرارتیوں نے ڈبل گیم کرنی شروع کر دی ہے ادھر سے بھی لکھتے ہیں ادھر سے بھی۔ اللہ رحم کرے۔
٭٭٭