سردار محمد نصراللہ
قارئین وطن! وطن سے بہت دور ہوں لیکن ا±س کے دل سے بہت قریب ہوں زندگی کے چالیس سال امریکہ میں گزارنے کے باوجود ایک لمحہ کے لئے بھی ا±س کی محبت دل سے نہیں ا±تری لہٰذا مقامی خبروں کے بجائے پاکستان کی فضاو¿ں میں گھومنے والی خبروں میں اور خبر بنانے والی شخصیتوں پر توجہ زیادہ رہتی ہے ۔ جن میں اہم لوگ اور خاص لوگ بھی شاملِ حال رہتے ہیں سینٹ کے الیکشن کو باضابطہ طور پر3 دن رہتے ہیں جبکہ بڑے صوبہ کا الیکشن تو نہیں ہوا لیکن بانٹ چھانٹ اور لے دے کے نتیجہ میں حکمران کو ۵ اور ن لیگ کو ۵ نشستیں بانٹ کر فیصلہ بند کمرہ میں بند کردیا ہے اور سب خوش خوش نظر آتے ہیں نہ مریم صفدر کی چیخ سنائی دی نہ عمران خان کی این آر او کی بھڑک ہمارے دوست ق لیگ امریکہ کے صدر نواب زادہ میاں ذاکر نسیم کے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الہی پر ملک کی سیاست پر ٹاک شوز سجانے والے اینکرز مرد و زن مبارک مبارک کے ڈونگرے برسا رہے ہیں کہ واہ جی واہ چوہدری صاحب کیا غضب کا کھیل کھیلا ہے اپنی دس سیٹیں رکھنے کے باوجود پی ٹی آئی اور ن لیگ کے کانوں میں کیا پھونک ماری کہ کامل علی آغا جو کبھی نواز شریف کا وفا دار ہوا کرتا تھا اور اس کے لئے کمزوروں کی پگڑیاں اُچھالا کرتا تھا اور آج وہ چوہدری شجاعت الہی اور پرویز الہی کا وفادار ہے کو بھی سینیٹر منتخب کروا دیا اور دونوں پارٹیوں کو برابر کی سیٹیں دلوا کر اپنی ایک روٹی لے کر سیاست کے درخت پر چڑ کر مبارک بادیں لے رہے ہیں اس کو شطرنج میں کہتے ہیں شہ اور مات۔ قارئین وطن! سینٹ کی اس بندر بانٹ پر میرے ایک با خبر دوست نے جو جام جم کی خصوصیت رکھتے ہیں انہہوں نے منتخب ہونے والے سینٹروں کے اثاثوں کی ایک چھوٹی سی فہرست میری آنکھیں کھولنے کے لئے بھیجی ہے جس کو پڑھ کر حیران بھی ہوا اور پریشان بھی اور کسی استاد کا شعر یاد آگیا !
کیسے کیسے لوگ ایسے ویسے ہو گئے
اور ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے
عزیزوں ! ابھی سینٹ کے الیکشن کے بقایا تین حصے باقی ہیں اور ان میں منتخب ہونے والوں اور والیںوں کے اثاثہ جات کی فہرست سامنے نہیں آئی اور جب آئے گی تو آپ لوگوں کے بنِ مو سے جو دھوواں ا±ٹھے گا کہ سب کے ہوش اڑ جائیں گے ۲۴ کروڑ لوگوں کی دولت صرف اِن چند ہاتھوں میں ہے جو ہمارے مقدروں کی مقدار کے اتار چڑھاو¿ کے ذمہ دار ہیں ۔ لیکن مجھے افسوس ایک پولیٹیکل ورکر ہونے کی وجہ سے ہے کہ ہماری فکر ہماری سوچ ہمارا ضمیر کس گندے بدبو دار گھٹر میں ڈُبکیاں لگا رہا ہے کہ ایک بے ضمیر ایک خائین اور ایک ایسے شخص جس نے ترک صدر ارد گان کی بیوی کا ہار جو اس نے اپنے گلے سے اتار کر کشمیر کے زلزلہ زدگان کو پیش کیا اپنی بیوی کے گلے میں ڈال دیا اس سے بڑی شرم کی کوئی بات ہے تو مجھے بتائیں اور ہم اس گیلانی کو ووٹ ڈالیں گے کہ اس کی رشتہ داریاں ان سو کالڈ بڑے خاندانوں سے ہے جو اس جیسے ہی چور ہیں جنہوں نے قومی دولت لوٹنے میں کوئی کثر اٹھا نہ رکھتا تھا خدارا میری التجا ہے ووٹ ڈالنے والوں سے کہ خدارا ایک بار صرف ایک بار اپنے ضمیر کو ضرور جھنجھوڑ لینا کہ کہیں قاتلوں میں تو شمار نہیں ہو رہے اور اگر آپ اپنے ضمیر کی آواز کو بلند کرتے ہیں تو اس گندے گٹر سے نکلنے کا اللہ پاک ہمیں ایک موقعہ دے گا آپ اپنی سوچ اور فکر کو بروئے کار لائیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ اب ہم ان چوروں لٹیروں اور ٹھگوں کو جو ہمارے مقدر کے ٹھیکے دار بنیں بھٹیں ہیں سے اپنا حساب چکتا کریں آئیں آپ خود اندازہ کر لیں کہ کتنے ظالم لوگ ہیں یہ اپنے مفادات کے لئیے ایک ہو گئے اب کسی کو جمہوریت کی تباہی کی فکرنہیں ہے آئیے اپنے رَبی سے دعا کریں ہاتھ ا±ٹھا کر کہ اس عذاب الہی سے نجات دلوانے آمین ۔
قارئین وطن ! آئیں اب ذرا بات کریں نئے انٹرنیشنل چوہدری بائیڈن کی تھوڑی سی بات کرتے ہیں اور حکومتی رٹ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رٹ کس کو کہتے ہیں اور کیسے قائم کرتے ہیں ۔ میرے ایک بڑے پیارے دوست دانشِ عصر ڈاکٹر مقصود جعفری ایک شاعر ادیب اور کوئی سو کتابوں کے مصنف نے رٹ کے حوالے سے ایک واقع سنایا میرا حافظہ جس نے کبھی اسکول کے معاملات میں میرا ساتھ نہیں دیا تو
اب کیوں دے گا لیکن کہیں کہیں کچھ یاد آتا ہے کہ انہوں نے بتایا کہ کشمیر جو تقسیم سے پہلے تھا میں ایک وزیر اعظم ہوا کرتا تھا کہ وہ وادی میں سیر پر نکلا ہوا تھا کہ اس کی نظر ایک جاتے ہوئے جنازے پر پڑی موصوف نے جنازہ رکوا کر مرحوم کا حال حوال پوچھا اور مردے کے پیٹ میں اپنا خنجر گھونپ دیا جنازے میں سب لوگ خوف زدہ ہوگئے کہ یہ تو مردہ کو نہیں چھوڑتا تو ہم لوگوں کا کیا حال کرے گا اس کو کہتے ہیں رٹ ۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی حکومت سنبھالتے ہی سعودی عرب کے محمد بن سلطان جو ع±رف عام ایم بی ایس کے نام سے جانے جاتے ہیں اس کو مشہور صحافی جمال خشوگی کے قتل کا ذمہ دار ٹھرا کر پوری دنیا کو ور طٰہ حیرت میں ڈال دیا ہے کہ اس نے دنیا میں اپنے سب سے بڑے اتحادی جس کے تیل کے کنوئیں کا بے دریخ استعمال کیا اور اپنے اسلحہ کے سب سے بڑے خریدار کی پرواہ نہیں کی ۔ چوہدری بائیڈن نے کھلم کھلا بادشاہ کو بتا دیا ہے کہ اس شخص جس کو ایم بی ایس کہتے ہیں اس کے ساتھ کوئی معاملہ نہیں کر سکتے لہازا کچھ دن پہلے تک ایم بی ایس جس کی گردن میں بھارتی اور اسرائیلی محبت کا سریا جم گیا تھا اور اس نے پاکستان کی ۷۲ سالہ دوستی کی پروا نہیں کی جو نہ صرف مقدس مقامات کے رکھوالے تھے بلکہ حرمین شریفین کے محافظ بھی ہیں اور اس نے یہ پروا بھی نہیں کی کے ۲۴ کروڑ عوام کے سامنے یہ دعویٰ کیا کہ وہ سعودی عرب میں پاکستانیوں کا سفیر ہے اس نے ہمارے مشکل وقت میں قرضہ کی واپسی کی ڈیمانڈ کر دی یہ جانتے ہوئے کہ پاکستان اس وقت کتنی مالی مشکلات میں ہے ۔ میں چوہدری بائیڈن کے اس اقدام سے بڑا خوش ہوں کہ اس نے ایسے کے ساتھ تیسا کیا ہے ۔ ہم پاکستانی صرف اور صرف رسول اکرم سے عقیدت جن کی پائے خاک پر میرے ماں باپ بھی قربان ورنہ “لارنس آف عریبیہ” کے یہ پالتو جنہوں نے مسلمان قوموں کو اپنی حکمرانی کے دور میں لوٹا اور چوریاں کی کو تحفظ دیتے رہے لیکن جب اسی طرح کے ایک لٹیرے شہنشاہ ایران کو پناہ کی ضرورت پڑی تو اس وقت کے امریکن چوہدری کے خوف سے پناہ نہیں دی یہ ہے ان کا کردار تو پھر جو±بائیڈن جو کر رہا ہے ٹھیک ہی کر رہا ہے ۔ امریکہ کی نئی حکومت نے پوری دنیا کو اپنے چوہدری کے فیصلوں سے آگاہ کر دیا ہے لیکن سوائے چین کے سب نے اپنی اپنی بساط کے مطابق سلام محبت پیش کرنا شروع کر دیا ہے ۔ میری ایک سیاسی کارکن اور اسٹودنٹ آف پالیٹیکس حکومت پاکستان کو مشورہ ہے کہ ا±س کو اپنے معاملات چین سے جوڑ کر رکھے کہ ۷۲ سالہ پاکستان اور امریکہ کی دوستی نے جہاں کچھ فائیدہ دیا ہے وہیں پر نقصان زیادہ دیا ہے آج خطہ کی سیاست اور جیو معاملات کو مد نظر رکھتے ہوئے چین کے ساتھ سی پیک کی کمٹمنٹ پر ثابت قدم رہنے کی ضرورت ہے اب ہمیں اپنے انٹرسٹ کو دیکھنا ہے نا کہ امپرئیل انٹرسٹ کو ۔
قارئین وطن! تین دن باقی ہیں ہمارے امتحان کو کہ وزیر اعظم ، سلارِ اعظم ، فقیہ ملک اور صدرِ مملکت ملک کی سلامتی کے لئیے کیا رول پلے کرتے ہیں کہ جس ملک کے ایوانوں میں چاہے وہ بالا ہو یا زیریں چوروں اور ڈاکوں کو اپنا ووٹ پروڈکشن آڈر پر ڈالنے کی اجازت ہو تو پھر اللہ ہی حافظ ہو ہمارا کہ میں نے تو اپنی 50 سالہ سیاسی عمر میں ایسی جمہوریت نہیں دیکھی قائید اعظم کے ملک کی بنیاد اس طرز حکمرانی پر نہیں رکھی گئی تھی اب ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے کل پر توجہ کریں کہ یہی پاکستان کا کل ہوگا۔ آخر میں میں واٹس آپ پر اپنے کالم کے قاری سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنے اپنے احباب کے ساتھ شئیر کریں تاکہ براڈ بیس میں اضافہ ہو سکے۔
٭٭٭