سفید اورسیاہ فام کا امریکہ!!!

0
179

Ramzan Rana. Legal Analyst. M. A , LLB & LLM (USA

بلاشبہ سیاہ فام نسل کے لوگوںکو غلام بنا کرامریکہ کے حوالے کیا گیا ہے جس میں افریقی قبائل برابر کے شریک رہے ہیں جن کی منڈیوں میں جانوروں کی طرح خریدوفروخت کی گئی جس میں امریکی بنک اور انشورنس کی کمپنیاں شریک رہی ہیںجو غلاموںکی خریدفروخت میں اہم رول ادا کرتی تھیںوہ لوگ زیادہ امرا تصور ہوئے تھے جن کے پاس لاتعداد(صحت مند غلام) ہوا کرتے تھے جس طرح پاکستان میں زیادہ بھیڑ بکریاں، گائیں، بھینسیں، بیل وغیرہ پالنے والے امیر کہلاتے ہیںلہٰذا امریکہ میں سیاہ فام انسانوں کو جانوروں کی طرح بیچا اور خریدا جاتا تھایہی وجوہات ہیں کہ آزادی کے بعد بھی عہد غلامی جاری رہا جس کے مالکان امریکی صدور بھی رہے ہیںجن کے پاس سینکڑوں غلام ہوا کرتے تھے جن کوامریکی صدر ابراہم لنکن نے1965ءمیں سول وار کے بعد آئین میں تیرہویں ترمیم کے ذریعے ختم کیا کہ آج کے بعد امریکہ میں انسانوں کی خرید وفروخت بند ہوگی تاہم انسانوںسے بزور طاقت کام کاج لیا جائے گا۔سیاہ فام آج کے بعد امریکی شہری ہونگے۔جو ووٹ دینے کے حقدار ہوں جو برابر کے انسان کہلوائیں گے۔جس کے باوجود امریکہ میں سیاہ فاموں کے ساتھ سرکاری اور غیر سرکاری غیر معاویانہ سلوک جاری رہاجس میں ساﺅتھ میں سیاہ فاموں کو خودمختار شہری تسلیم نہ کیا گیا جن کے خلاف طرح طرح کے قوانین بنائے گئے جس کو سپریم کورٹ نے بار بار رد کرکے سیاہ فاموںکوحق دلوائے تاہم آج پورا امریکہ سیاہ فام اورسیاہ نسل میں تقسیم ہوچکا ہے جو اپنے اپنے مطالبات کی زد میں آچکا ہے جس کوریپبلکن حسب معمول اور غلامانہ رویہ اختیار رکھے ہوئے ہیںجبکہ ڈیموکریٹک سیاہ فاموں کو سیاسی طور استعمال کر رہی ہے۔حالانکہ امریکہ کی تین سوملین آبادی میں سفید فاموں کے مقابلے میں پچاس ملین لاطینو، چالیس ملین سیاہ فام اور20ملین ایشین اور دیگر اقلیتیں آباد ہیں جس میں نیٹو امریکن کی تقریباً تین ملین کا ذکر تک نہیں ہے جو موجودہ امریکہ کے اصلی مالکان ہیںلہٰذا صرف سیاہ فام کا چوبیس گھنٹے بحث ومباحثوں سے دوسری اقلیتیں جن کو براﺅن کہا جاتا ہے۔وہ کسی گنتی میں نظر نہیں آرہے ہیںجو موجودہ امریکہ کی ترقی اور خوشحالی میں پیش پیش ہیںجس سے کمیونٹی بالمقابل کمیونٹی تقسیم کیا جارہا ہے۔جس کا آغاز سیاہ فاموں کو سابقہ غلامی کا معاوضے دینے پر ہوا ہے۔کہ سیاہ فاموںکو الانائے ریاست میں پچیس ہزار ہرگھر کے مالک کو بطور مورگیج ادا کیا جائےگایا پھر گھروں کی مرمت میں پچیس پچیس ہزار رقوم دی جائیں گی جس کا فلسفہ سمجھ سے یا پھر ایک مالک مکان کو مکانوں کے قرضے یا مرمت میں سابقہ غلامی کا معاوضہ دیا جائے۔یہ جانتے ہوئے کہ مکانوں کے مالکان غریب اور مفلس سیاہ فام نہیں ہوتے ہیں جو سرکاری یا غیر سرکاری ملازمتوں یا کاروبار میں کام کاج کرتے ہیں جن کے پاس اتنی رقوم ہوتی ہیںکہ وہ لاکھوں کا گھر خرید پائیں جن کی مدد ٹیکس ادا کرنے والوں کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ہاں یہ ضرور ہے کہ حکومتیں سیاہ فاموں کے لیے اچھے سکولز اور ہسپتال تعمیر کریں،انڈسٹری لگائے۔محنت ومشقت کے مواقع فراہم کرے جس طرح لاطینی اور ایشین امریکن دن رات محنت ومشقت کرتے نظر آتے ہیں جس سے ان کو اپنی اولاد میں پالنے پوشنے کا موقع ملتا ہے اسی طرح سیاہ فاموں کو بھی زیادہ سے زیادہ کام کاج فراہم کیے جائیں تاکہ سیاہ فام گھروںکے مالکان کو ٹیکس ادا کرنے والے امریکی شہریوںکی رقم کو ضائع نہ کیا جائے جو سیاہ فاموں کی مدد نہیں سیاسی رشوت کہلائے گی۔بالکل ٹھیک ہے کہ سیاہ فاموں کے ساتھ زیادتیوں کا ازالہ ہونا چاہئے جو اسکولوں میں وظیفوں،اسکولوںمیں داخلوں تعلیم کے زیادہ زیادہ سے مواقع فراہم کرنے پر کئی شکل میں ہوسکتا ہے نا کہ جیبوں میں رقوم ڈالنے سے ہوگاجس طرح یہودیوں نے ڈھائی ہزار سالہ عہد غلامی کو علم کے ذریعے نہ صرف ختم کیا بلکہ آج دنیا پرحکومت کر رہے ہیں۔اس طرح سیاہ فاموں کو تعلیم حاصل کرکے اپنے ڈھائی سو سالہ عہد غلامی کا بدلہ لینا چاہتے ہیںجس کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ کار نہیں ہے۔لہٰذا سرکاری امداد پر انحصارکرنا اپنی اپنی نسلوں کو تباہ وبرباد کرنے کے مترادف ہے جو محدود اور مخصوص امداد پر ایسا ہی انحصارکریں گے جس طرح نیٹو امریکن روز بروز ختم ہو رہے ہیں۔اسی طرح سیاہ فام بھی ایک دن مکمل طور پر سفید فاموں یا براﺅن رنگ والوں کے محتاج بن کر رہ جائیں گے۔بحرحال موجودہ انتخابات میں سفید فام اور سیاہ فام نسل کو بری طرح استعمال کیا گیا ہے جس کے جلسے وجلوس نکالے گئے ایک سیاہ فام شخص کے قتل پر پورا ایک ماہ جلسے وجلوس نکلتے رہے جبکہ آج ایشین امریکن کو چن چن کر مارا جارہا ہے جس پر کوئی ایکشن نہیں لیا جارہا ہے جن کا بھی ووٹ بنک ملین میں پایا جاتا ہے جو امریکہ کی معیشت کی ریڑ ھ کی ہڈی کہلاتے ہیںجو ہر سال اربوں کھربوں کا ٹیکس ادا کرتے ہیں مگر وہ آج امریکہ میں لاچار اور بے بس نظر آرہے ہیںکیونکہ وہ سفید یا سیاہ فام نہیں ہیں۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here