ہیوسٹن شہر میں افطار پارٹیوں کا رحجان بہت پُرانا ہے، سب سے پہلے شہر ہیوسٹن میں میئر آف ہیوسٹن لی برائون کے زمانے میں غلام محمد بمبئے والا اور منظور میمن نے مل کر اس افطار ڈنر کا اہتمام کیا جس میں تمام مذاہب کے لوگوں کو مدعو کیا جاتا تھا اور کئی سال تک یہ افطار چلتی رہی پھر اس میں بھی ہماری قوم جو بغیر اختلاف کے رہ نہیں سکتی وہاں بھی سیاست شروع ہو گئی۔ اسلامک سوسائٹی آف گریٹر ہیوسٹن نے اس کی ذمہ داری سنبھالی اس کے بعد جو اس افطار کو جو شہرت کی بلندی پر پہنچایا وہ ہیوسٹن کراچی سسٹر سٹی کے سعید شیخ نے بڑی کامیابی کیساتھ اس افطار کو شروع کیا اور اب تک وہ کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں وہ اس افطار کو نبھاہ رہے ہیں جس پر ہماری کمیونٹی کچھ اُبھرتے ہوئے لیڈران نے اس پر بڑے اعتراض کئے اور میں اس بات کا گوا ہ ہوں کہ میئر کا کیا تعلق ہے وہ کچھ خرچہ نہیں کرتا لیکن افطار ڈنر کا نام میئر افطار ڈنر رکھ دیا گیا۔ اور اب تو ہمارے ہیوسٹن میں نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور ایک دوسرے سے بازی لے جانے کا کام شروع ہو گیا ہے جو پچھلے بیس سالوں سے ہیوسٹن افطار ہوتی آرہی تھی اور سب مل کر رہے تھے لیکن اس دفعہ ذاتی رنجشوں کی وجہ سے اب دوسری پارٹیوں نے بھی افطار شروع کر دی ہے۔ اس دفعہ ایک دن پہلے فورڈ بینڈ کائونٹی افطار کا انعقاد ہوا جس میں پوری ڈیم وکریٹ پارٹی کے عہدیدار شریک ہوئے اس میں پوری کوشش کی گئی کہ میئر ہیوسٹن کی طرح افطار کی جائے ہاں البتہ وہاں لوگوں کو افطاری کروائی گئی اور ٹوگو بوکسز بھی دیئے گئے۔ فورڈ بینڈ ڈی اے کی طرف سے بھی محمد بیگ کے تعاون سے افطار کا اعلان ہوا لیکن جب لوزیانہ چکن کے محمد بیگ کو بتایا گیا کہ افطار پارٹی میں تمام سیاسی الیکٹٹ عہدیدار بھی شریک ہونگے تو محمد بیگ نے افطار ڈنر کینسل کر دیا جس سے سنا ہے کہ کچھ آفیشل ناراض ہو گئے لیکن انہوں نے پرواہ نہیں کی کیونکہ ان کی نیت سیاسی فائدہ اٹھانے کی نہیں تھی اس افطاریوں کا مقصد ثواب سے نہیں بلکہ اپنے اپنے نمبر بڑھانے سے ہے۔ بجائے ان افطار پارٹیوں خے اگر مستحق لوگوں کو جو بیچارے ایک وقت کی روٹی کو ترستے ہیں ان کو امداد دی جاتی، ہمارے دوست صحافی کامران جیلانی نے بھی اپنے فیس بُک کے کالم میں اس پر تبصرہ کیا ہے اور میرا بھی ذکر کیا ہے کہ میں جس طرح لکھتا ہوں بے شک میں کامران جیلانی کی طرح نہیں لکھ سکتا کیونکہ مجھے اپنا اخبار چلانا ہے اور جس طرح ان حالات میں اخبار چلایا جا رہا ہے لوگوں نے اشتہارات کے پیسے بھی دینے بند کر دیئے ہیں انہوں نے صرف کرونا کا بہانہ بنا کر فائدہ اٹھایا ہے اور ایک بات میں اور لکھ رہا ہوں کہ یہی اخبارات ہیں جس کی بدولت آج ہمارے شہر میں لیڈران بنے ہیں اور مشہور ہوئے ہیں لیکن ان بُرے حالات میں کسی لیڈر ایسوسی ایشن نے یہ نہیں پوچھا کہ ہر ہفتہ اخبار کس طرح نکال رہے ہو بس ایک شخصیت ایسی ہے جو اپنا نام نہیں چاہتی اگر وہ مدد نہ کرے تو میں تو اخبار بھی نہیں نکال سکتا۔ اور جہاں تک اخباری تشہیر کا تعلق ہے تو وہ تو ہمارا جائز حق ہے ہمیں پرنٹنگ دینی پڑتی ہے ہمارے تو ایسے بھی لوگ ہیں جو یہی سوچتے ہیں کہ کوریج کے پیسے نہیں لینے چاہئیں جن کو تصویریں لگوانے کا شوق ہے لیکن جیب سے پیسے نکالتے ہوئے دم نکلتا ہے۔ سلمان رزاقی بھائی نے بھی افطار کا اہتمام کیا تھا میں کچھ منافقوں کی وجہ سے وہاں نہ جا سکا لیکن مجھے واقعی افسوس ہوا کہ وہ شخص جو اس طرح کی پارٹیوں کو مخالفت کرتا ہو کہ صرف اپنے لوگوں کو افطار کروادی جائے لیکن ان کی پارٹی میں بھی فورڈ بینڈ کائونٹی کے عہدیدار موجود تھے وہ تو پاکستان میں غریبوں کی مدد کرنا چاہتے تھے پہلے کیونکہ وہ نئے تھے اس لئے انہوں نے جو افطار پارٹیاں پہلے کی تھیں اس میں دیسی ہی تھے لیکن اب کیونکہ وہ بھی سیاست میں تیزی سے مقبول ہو گئے ہیں تو وہ کس طرح پیچھے رہ جاتے جبکہ طاہر جاوید جو کہ خود ایک ڈیمو کریٹک لیڈر ہے انہوں نے اپنی افطار پارٹی میں صرف اپنے دوستوں اور فیملیز کو بلایا تھا لگتا ہے کہ اگلے سال اور بہت سے لوگ میدان میں آجائینگے اور بڑی بڑی افطار پارٹیاں کی جائینگی۔ خدا کیلئے اگر آپ خدا کی خوشنودی کیلئے یہ کام کر رہے ہیں تو پھر ریحان صدیقی کی طرح جو روزانہ 300 لوگوں کو فری افطاری اور ڈنر کروا رہا ہے ہیوسٹن میں کوئی ریسٹورنٹ نہیں ہے جو یہ کام کر رہا ہے۔ غریبوں میں راشن تقسیم کریں پاکستان میں لوگوں کی مدد کریں جو آپ کی زکوٰة صدقہ کے منتظر ہیں جن کے گھروں میں فاقے ہوتے ہیں تاکہ ان کے دلوں سے دعائیں نکلیں۔ میں نے بھی کوشش کی ہے کہ کچھ سچائی لکھنے کی بُری نیت سے نہیں بلکہ اچھاائی کی نیت سے اور آخر میں یہ بات لکھ رہا ہوں کہ ایسے لوگوں سے ہوشیار رہیں جو آپس میں تفرقہ ڈلوانا چاہتے ہیں خدارا نفرتیں ختم کر دیں اور ایک دوسرے کیساتھ مل کر چلیں۔
٭٭٭