!!! اسائلم کیلئے امریکا و کینیڈا کا دروازہ کھلا ہے

0
141
حیدر علی
حیدر علی

میڈیا کی جانب سے خبر آئی ہے کہ پاکستان کے جاں نثاروں نے یورپ میں اسائلم حاصل کرنے کیلئے جان کی بازی لگادی ہے، بڑے تو ماشااﷲ 10 سالہ چھوٹے بچے بھی لائن میں کھڑے دیکھے گئے ہیں، پتا نہیں اُنہیں اسائلم حاصل کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی، کیا اسکول میں اُن کے اساتذہ ہوم ورک نہ کرنے کی وجہ کر اُن کی پٹائی کیا کرتے تھے، یا وہ ہماری طرح اسکول سے بھاگ جایا کرتے تھے؟اِس سے قبل یورپ میں ہی ایک 10 سالہ بھارتی بچے نے ایک 8 سالہ لڑکی سے شادی کرکے گرین کارڈ حاصل کرنے کیلئے درخواست دی تھی، لڑکے کے والدین نے امیگریشن کے حکام کو بتایا تھا کہ دراصل اُن کی شادی بھارت میں ہوئی تھی، اِسلئے وہ یورپی قانون سے مستثنیٰ تھے تاہم یورپی امیگریشن والوں نے اُنہیں کہا کہ جب لڑکی جوان اور لڑکا 16 سال کا ہوجائے تو پھر وہ اپنی درخواستیں دوبارہ جمع کرائیں۔لیکن جہاں یورپ میں پاکستانیوں کی اسائلم کیلئے درخواست دینے والوں کی تعداد دیکھ کر آنکھیں چکا چوند ہو جاتی ہیں، وہاں امریکا میں اُن کی رسائی محدود ہونے کی وجہ اُن کا نمبر سر فہرست ہونے والے دس ممالک میں بھی شامل نہیں، یورپ کے ممالک اٹلی، فرانس، جرمنی اور یونان پاکستانیوں کی مقبول ترین منزلیں ہیں اور ہر پاکستانی وہاں پہنچنے کیلئے تن من کی بازی لگادیتا ہے لیکن یہ کوئی ضروری نہیں کہ اِن ممالک میں اُن کی اسائلم حاصل کرنے کی کوششیں کامیاب ہی ہوسکیں بلکہ اُن کی درخواستیں مسترد ہونے کے مواقع اعداد و شمار کی روشنیوں میں کچھ زیادہ ہی ہیں،امیگریشن کے ماہرین کی رائے میں اسائلم کے خواہشمند پاکستانیوں کی یورپ میں 80 فیصد درخواستیں مسترد ہو جاتی ہیں،2019ء میں جرمنی میں 2,174 پاکستانیوں نے اسائلم کیلئے درخواستیں دی تھیں، اُن میں صرف 154 امیدواروں کو وہاں کی حکومت نے اسائلم سے نوازا تھا، اُسی سال یعنی 2019 ء میں 574 پاکستانیوں نے امریکا میں اسائلم کیلئے قسمت آزمائی کی تھی جن میں سے 279 کو اسائلم حاصل ہوگئی تھی، اِسی طرح کینیڈا میں 2059 درخواست گزاروں میں سے 1376 اسائلم لینے میں کامیاب ہوگئے تھے۔اِن اعدادو شمار سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یورپ کے مقابلے میں امریکا اور کینیڈا میں اسائلم لینے کے مواقع زیادہ ہیں، پاکستان اُن پانچ ممالک میں شامل ہے جہاں کے سورماؤں نے یورپ میں سب سے زیادہ اسائلم کیلئے درخواستیں دی ہیں،بدقسمتی سے پانچوں ممالک کا تعلق برادر اسلامی ممالک سے ہے ، ایک عام فہم جو ہر کس و ناکس کے ذہن میں ابھرتا ہے کہ آخر پاکستانیوں کو اسائلم کیلئے درخواست دینے کی کیا وجوہات تھیں، کیا وہ کبھی پولیس کی لاٹھی کے نرغے میں آگئے تھے یا سر راہ چلتے چلتے اُن پر انڈوں کی بارشیں کی جاتیں تھیں؟ حقیقتیں جو سامنے آئیں ہیں اُن کی رو سے بیشتر کا تعلق اکثریت طبقہ کے افراد یعنی سنی المذہب سے ہے ، نہ ہی وہ قادیانی، نہ ہی عیسائی اور نہ ہی ہندو ہیں. تو پھر کیا وجہ ہے کہ سنی المذہب کے افراد کو پاکستان سے کیوں اتنی چپقلش ہوگئی کہ وہ یورپ جاکر اپنے آپ کو پناہ گزیں بننے کا دعویٰ کررہے ہیں؟ کیا پاکستان میں مولانا فضل الرحمن یا مفتی منیب الرحمن اُنکے مفاد کا تحفظ کرنے سے انکار کر دیا ہے؟ کیا اُنہیں عید کے چاند دیکھنے میں دشواریاں ہونے لگی ہیں یا یہ محض یورپ میں سکونت اختیار کرنے کا ایک ڈھکونسلا ہے؟لوگوں کو یہ حیرانگی ہورہی ہے کہ اتنے تعداد میں پاکستانی غیر ملک میں جا کر اسائلم کیلئے درخواستیں دے رہے ہیں بلکہ ماہرین کی رائے میں موجودہ حکومت کے وزرا کے عزیز و اقارب بھی اِس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں کسی سے کم نہیں، ایک مرکزی وزیر نے تو یہ عذر پیش کیا ہے کہ گرفتاری کی تلوار ہمیشہ اُن کے گردن میں لٹکتی رہتی ہے اور اگر آج اُن کی وزارت گئی یا کل اُن کی حکومت کا تختہ اُلٹ گیا تو پھر جیل کی کالی کوٹھری جانے سے اُنہیں کوئی نہیں بچا سکتا؟ اِسلئے وہ فی الوقت اسائلم کیلئے درخواست دے کر کل کے اپنے مستقبل کی ضمانت حاصل کر رہے ہیں۔یورپ اور امریکا میں اسائلم کیلئے درخواست دینے والوں میں ترکی کے شہریوں کا نمبر بھی پیش پیش ہے، آج سے چند سال قبل وہاں کے کرد باشندے یورپ میں اسائلم حاصل کرنے کیلئے بے چین رہتے تھے اور آج صدر طیب اردوان کے اِس قول سے اگر کوئی اُن کی حکومت کا وفادار نہیں تو وہ دہشت گرد ہے، بے شمار وہاں کے شہریوں کو ترک وطن کرنے پر مجبور کردیا ہے،اِس فہرست میں وہاں کے حزب اختلاف کے رہنما گولن کے حمایتی اب صف اول میں شامل ہوگئے ہیں۔اسائلم کی بنیاد ابتدا میں سیاسی اختلافات میں تشدد کی امکانات ہوا کرتیں تھیں، لیکن اب اِس کے پیمانے میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور مذہبی اختلافات، تبدیلی مذہب، توہین رسالت ۖ پاکستانیوں کے اسائلم حاصل کرنے کی ایک شاطرانہ چال بن گئی ہے، جبکہ امریکا میں اُن کے مقابلے میں چینی باشندے وینزویلا اور ایلسلواڈور کے پناہ گزیں سیاسی بنیاد پر ہی ہزاروں کی تعداد میں اسائلم حاصل کر رہے ہیں، اسائلم کی انٹرویو میں امیگریشن افسر اِس بات کا تجزیہ کرتے ہیں کہ آیا درخواست گذار جھوٹ تو نہیں بول رہا ہے یا وہ واقعی میں ظلم و ستم کی صعوبتوں سے دوچار ہوا تھا،مذہبی بنیاد پر اسائلم حاصل کرنا اور بھی زیادہ دشوار ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here