قارئین وطن! آج کل تو اپنا یہ حال ہے کہ اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں اور بیگانے بھی نا خوش ، اپنے کہتے ہیں کہ تم عمران خان کی حکومت کو پورا کریڈٹ نہیں دیتے جس کے وہ مستحق ہیں اور بیگانے یہ کہتے ہیں کہ تم نواز شریف اور شہباز شریف کے ہی پیچھے پڑے رہتے ہواور تم کو عمران اور اْس کی اے ٹی ایم اور ٢٢ گریڈ کے جرنیلوں کی اربوں روپے کی کرپشن نظر نہیں آتی ، پہلے تو میں اپنوں اور بیگانوں پر یہ واضع کرنا چاہتا ہوں کہ میں کوئی پیشہ ور قلم کار نہیں اور میں نہ تو کسی کے ”پیرول” پر ہوں مجھے کوئی تنخواہ نہیں دیتا میں اپنے شوق سے لکھتا ہوں نہ مجھ کو کوئی ڈکٹیٹ کرتا ہے اور نہ میں کسی کی ڈکٹیشن وصول کرتا ہوں لہٰذا جو میرا دل اور حالات گائیڈ کرتے ہیں اْسی کے حوالے سے قلم کو جنبش دیتا ہوں مجھے کسی کی ناراضگی اور خوشی کی پروا نہیں ہوتی لیکن جب میرے قارئین اپنے اپنے کمنٹس بھیجتے ہیں یقیناً جہاں اچھے ملتے ہیں وہاں تنقیدی بھی ہوتے ہیں جن کو میں بہت پوزیٹو لیتا ہوں اور اپنی لکیروں کو درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ ہر روز میں اپنے آپ کو ایک طالبعلم سمجھتا ہوں ۔
قارئین وطن! مجھے اپنوں اور بیگانوں کو اپنی کھینچی ہوئی لکیروں اور سوچ اور فکر کے بارے بتانے کی ضرورت کی وجہ اس لئے محسوس ہوئی کہ لاہور کے ایک مشہور بیوروکریٹ جن کا طوطی سیاسی نگار خانوں میں گونجتا تھا انہوں نے میاں نوازشریف، شہباز شریف اور تھوڑے عرصہ کے لئے شاید منظور وٹو اور پھر چوہدری پرویز الہیٰ کے ساتھ کام کیا لیکن اْن کے اندر نواز شریف اور شہباز شریف کے لئے محبت کوٹ کوٹ کر بھری پڑی ہے موصوف جب اپنی سرکاری کرسی پر بیٹھے تھے تو وہ پنجاب کی سروس میں تھے لیکن کراچی سے خیبر تک تمام اخبارات کے مالک اور ان کے قلم کار اِن کی انگلیوں پر ناچتے تھے ، یہ اْن ہی کا شاخسانہ تھا کہ اخبارات کے مالکان اور اْن کے صحافی بھائی بہن سیروں کے وزن کے حساب سے ان سے لفافے وصول کرتے اور اْس کے عوض ایسی ایسی سرخیاں نکلواتے کہ لوگ سمجھتے کہ نواز شریف پاکستان کی سیاست کا چرچل ہے اور شہباز شریف ذہین و فطین بھٹو ہے جبکہ آج کی تاریخ میں بھی نواز شریف ایک ڈفر ، فراڈ اور خائین ہے اور دوسرا بھی انہی خاصیت کا حامل ہے لیکن اللہ کی شان مجھ کو کہتے ہیں کہ جرنیلوں کی پزیرائی کرنے والوں پر لعنت تم کو نواز شریف ہی ملا ہے لکھنے کے لئے ـ” بْت ہم کو کہیں کافر اللہ کی یہ مرضی ہے” موصوف جو آج ہم پر اپنی فوج کی تعریف کرنے پر لعنت بھیج رہے ہیں اِن کو معلوم ہونا چائیے جب وہ سیاسی بلوغت تک نہیں پہنچے تھے اور اپنے ایک شعر کی وجہ سے منظر پر نہیں نظر آئے تھے !
اْداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں
ہم ایوبی آمریت کے ڈنڈے کھا رہے تھے اور بزرگ اْس کی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے جب پاکستان ٹوٹ رہا تھا ہم رو رہے تھے، ضیالحق کے دور سے تو آپ خوب واقف ہیں جب آپ کا پیارا اور اْس کا باپ بجلی چوری کی رقم سے بیگم ضیا کے گلے میں دس کلو کا سونے کا ہار ڈال رہے تھے جس پر جنگ کے حقانی صاحب کے سوال کرنے پر ضیا نے خوب سر زنش کی ۔آپ اْس وقت قریب ہی کھڑے تماشہ اہلِ کرم دیکھ رہے تھے ـ حضرت آج سردار نصراللہ اگر اپنی فوج کی تعریف کرتا ہے اور ان کو ڈیفنڈ کرتا ہے تو اْس کی بنیادی وجہ کہ میرا ملک سی آئی اے، را ، ایم آئی سیکس ، موساد اور سعودی ایجنٹوں نے گھیرا ہوا ہے اور آپ کا محبوب نواز شریف اور اْس کی بیٹی ملک سے بیماری کے نام پر فرار ہو کر اس مٹی سے غداری کر رہے ہیں جس نے اْس کو چمٹے بنانے والے سے اتفاق انڈسٹری کا مالک اور پھر تین مرتبہ وزیر اعظم اور آپ ہم پر لعنت بھیجتے ہیں ۔
قارئین وطن ! میں کئی مرتبہ اپنے پڑھنے والوں کو بتا چکا ہوں کہ میں عمران خان ، نواز شریف، زرداری کا بندہ نہیں ہوں اللہ جانتا ہے کہ عمران خان اپنے بچپن میں کیا کرتا تھا مجھے اس سے کوئی غرض نہیں جو حرکتیں وہ کرتا تھا اْس سے بتر حرکتیں آپ کے محبوبوں کی ہے !
سمجھ کر غیر مجھے اتنے پردے دار نہ ہو
پتے بہت سے بتا دوں جو اعتبار نہ ہو
تمہارے چاند سے رْخ کی قسم میں ہی ہوں قمر
جگر کا داغ دکھا دوں جو اعتبار نہ ہو
میں نے دس سال بڑے قریب سے نواز شہباز کے ساتھ کام کیا ہے اور اْن کی حرکتیں دیکھ کر اْس وقت کو پچھتا رہا ہوں جب آپ جیسے سرکاری ملازم پاکستان کی فلاح و بہبود کے بجائے اِن چوروں کو ہم پر مسلط کر رہے تھے ، میری آپ سے گزارش ہے کہ عمران خان کو یہود و نصاریٰ کا ایجنٹ کہنے سے پہلے ذرا قریب ہو کر دیکھ لیں تو آپ کو سیاسی آئینہ میں نواز ، شہبازاور زرداری اور ان کے حواری نظر آئیں گے !
اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حقائیت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند و قبا دیکھ
قارئین وطن ! آخر میں میں اپنی نیو یارک کمیونٹی کو خبر دار کرنا چاہتا ہوں کہ میرے دوست پرنس آف بیمہ فروش ”ندیم وامق” صاحب کل ہی بیمہ فروشوں کی کونسل نیو یارک کے دارلخلافہ البنی میں بیمہ انڈسٹری کے بڑوں کو مل کر آئے ہیں جہاں گورنر ”قومو” بھی موجود تھے اور پتا لگا کہ لائف انشورنس کی کووڈ کی وجہ سی ٠٣ سے ٠٤ پرسنٹ قیمتیں بڑھ رہی ہیں میں وامق صاحب کا مشکور ہوں کہ انہوں نے ایک سابق بیمہ فروش کے ناطے مجھے اطلاح بہم پہنچائی میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے کووڈ کی وجہ سے بہت سے اپنے کھودیئے میری گزارش ہے کہ خدارا ندیم وامق سے رابطہ کریں اور اپنے خاندان کو مالی محاذ پر اس مرض سے محفوظ کریں تاکہ پسماندہ خاندان اپنی کفالت بہتر طور پر کر سکیں۔
٭٭٭