قارئینِ وطن! اِ س ہفتہ کالم لکھنے کو بلکل دل نہیں کر رہا تھا ،اْس کی وجہ میرا پچھلا کالم جس کا عنوان تھا ”بْت ہم کو کہیں کافر اللہ کی یہ مرضی ہے”ہمارے ایڈیٹر امجد اقبال بٹ صاحب نے یہ کہا کے آپ کا کالم بحوالہ سرکار ضبط ہو گیا ہے چھپا نہیں۔ میں پیشہ ور کالم نگار تو ہوں نہیں کہ کسی کے پے رول پر ہوں یا مجھ کو معاوضہ ملتا ہو ،میں نے کوئی 20سے 22 سال پہلے ”پاکستان نیوز”نیو یارک میں شوقیہ لکھنا شروع کیا اور آج تک لکھ رہا ہوں ،ہفتہ میں ایک کالم لکھنا ہوتا ہے کوئی خاص مضمون ذہن میں ہوتا ہے ،نہ کوئی پہلے سے سوچا ہوتا ہے کبھی کسی کی تقریر کہ انداز کو یاکوئی ملکی سلامتی کے حوالے سے ٹاپک بن جاتا ہے اور سب جانتے ہیں کہ میں ایک پولیٹیکل ورکر بھی ہوں میرے نزدیک سب سے پہلے میرے ملک پاکستان کی سلامتی اور آزادی ہے ۔ بدقسمتی سے میرے ملک میں پچھلے 60سالوں سے پولیٹیکل کلچر کو پروان چڑھنے نہیں دیا گیا اور اْس کی ذمہ داری ہماری فوجی سازو سامان کے مالکوں کی ہے اور اِس وجہ سے ہمیں ڈفر، کرپٹ،خائین ، چور اور لٹیرے ملے ہیں لیکن ہم لوگ بھی اِس کے حصہ دار رہے یہاں تک کے شاید یہی قیادت بہتر ہو پہلے سے لیکن نہیں نہ وہ ٹھیک ہوئے نہ سول اور ہم جیسے بیچ میں پس کر رہ گئے ۔
قارئینِ وطن! مجھ جیسے لکھنے والے کو تقریباً دو گھنٹہ سے زیادہ اِن اور اک پر لکیریں کھینچنے پڑتی ہیں اور اْس پر کوئی کالم ضائع کر دے تو دل دکھتا ہے، میں نے جب لکھنا شروع کیا تو اپنے پبلشر مجیب لودھی صاحب کو کہا تھا مجھے کوئی دستار یا قبا نہیں چاہئے صرف احترام جس کا انہوں نے آج تک پاس رکھا اور دونوں طرف سے یہ رشتہ قائم ہے آہ گوجرانوالہ کے عزیز انصاری صاحب یاد آرہے ہیں اکثر لاہور شیزان میں ملاقات ہوتی تو زور زور سے شعر پڑھا کرتے تھے!
کب ہم نے کہا تھا ہمیں دستار و قبا دو
ہم لوگ نوا گر ہیں ہمیں اذنِ نوا دو
خیر چھوڑیں وطنِ عزیز میں ”پی ڈی ایم ” کا سوات میلہ دیکھا قسم خدا کی کوئی تھا جو پاکستانی تھا یہ ضرور تھا کہ لبادہ ان کا پاکستانی تھا فطرت اور مزاج اْن کا کسی کا ”را”، کسی کا” سی آئی اے” ، کسی کا” ایم آئی سیکس” اور تو اور” موساد ” اور کئی تو اِن سے بھی بہت آگے چلے گئے ۔ میری طرح آپ لوگوں میں سے بیشتر نے اْس سواتی میلے میں تقریریں سنی ہوں گی، سب وہی رونا دھونا ہائے میں مر گئی، میری گدی چھن گئی، کسی کی روٹی چھن گئی ۔ آپ ذرا تین دفعہ کے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی طرف چلتے ہیں پہلے تو مجھ کو شرم آتی ہے کہ ایک قومی چور اور لٹیرے کے بارے لکھوں لیکن مجبوری کہ جیسے تیسے وہ مسلط رہا ہم پر ہم نے زندہ باد کے نعرے بھی لگائے لیکن جب میرے رب باری تعالیٰ نے آنکھ کھولی اور سمجھ آئی کہ یہ تو چور ہے تو سب سے پہلا نعرہ اس خادم سردار نصراللہ نے لگایا ” چور ہے بھئی چور ہے ،شہباز شریف چور ہے” اور واقعی وہ نہ صرف چور ہے بلکہ ڈاکو بھی ہے۔ اوئے ہوئے اْس کی تقریر ساتویں کے بچے کو پرچی پر جیسے قاری ثنااللہ نے لکھ کر دی ہوئی ، رٹی ہوئی باتیں وہی جملے اور آخر میں میرے مرشد اقبال کا شعر!
نہیں یہ شانِ خْد داری چمن سے توڑ کر تجھ کو
کوئی زیبِ گلو کر لے کوئی دستار پر رکھ لے
بس یہی کچھ رہ گیا ہے موصوف کے پاس منہ اْترا ہوا اقتدار کی بھیک چہرے پر جھلک رہی ہے یہی کچھ تھا اس کے پاس کہنے کو ۔ اب ذرا پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان کی طرف چلتے ہیں جن کی تقریر بیرونی آقاؤں کی غلامی کی طرف زیادہ مائیل تھی جب یہ تقریر کر رہے تھے اور اِن کے پیچھے تالیاں پیٹنے والے تو میں یہ سوچ رہا تھا کہ اللہ اللہ کیسے ہمارے صاحب بہادروں نے ہم پر اِن لوگوں کواور بیچاری قوم پر وارد کیا ہوا ہے اِن لوگوں کو ذرا بھی خیال نہیں آیا کہ وہ اپنی حکمرانی کو قائم رکھنے میں قوم پر کتنا ظلم کر رہے ہیں۔ ایک بھی شخص کو انٹر نیشنل حالات کی فکر نہیں کہ دنیا کدھر جا رہی ہے۔ سی پیک کی مغربی دنیا بشمول انڈیا ہمیں تباہ کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے اْدھر امریکہ افغانستان میں شکست کی بعد ایک زخمی سانپ کا کردار ادا کر رہا ہے اب ایسی سیاسی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ہمیں اپنی فوج کے ساتھ کھڑا ہونا بنتا ہے اگر کسی کو اعتراض ہے تو ہوتا رہے ۔ میں تو اپنی فوج کے ساتھ اور عمران کی حکومت کے ساتھ کھڑا ہوں حالانکہ میرا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں لیکن ہمارے کچھ دوست جو اسرائیل کے اْس طرف کھڑے ہیں سمجھتے ہیں کہ ہم اْن کے بندے ہیں میں صرف پاکستان اور کونسل مسلم لیگ کا بندہ ہوں جس نے اِ س ملک کے سب سے پہلے آمر ایوب خان کو للکارا اْس وقت رانا رمضان کو چھوڑ کر سب ایوبی جھولی میں پل رہے تھے اور آج وہ جمہوری ہیں جیسے ضیالحق کی گود میں جھولنے والے بہت بڑے جمہوری بنے بیٹھے ہیں، اللہ پاک میرے وطن کا حامی و ناصر ہو، پاکستان زندہ باد ۔
٭٭٭