گذشتہ سے پیوستہ
بریر ابن خضیرشیر امت بن کر دفاع اہل بیت میں دشمنوں پر جھپٹتے تھے بہت سارے اشقیاء کو انہوں نے بڑھ بڑھ کر قتل کیا ، نافع بن ہلال جملی (بجلی) دلیرانہ رجز پڑھتے ہوئے کشتوں کے پشتے لگاتے ہوئے راہی بہشت ہوگئے یہ محافظ حسین شمار ہوتے تھے عبداللہ اور عبدالرحمن فرزندان عزرہ غفاریاں نے ظہر عاشورا کے بعد سرکار سید الشہداء سے دفاع وجہاد کا اذن طلب کیا ، حنظلہ ابن سعد نے امام حسین اور ان کے خون کے پیاسوں سے دفاع وجہاد کا اذن طلب کیا۔
حنظلہ ابن سعد نے امام حسین اور ان کے خون کے پیاسوں کے درمیان کھڑے ہو کر کہا اے فوج اشقیاء تم قتل حسین سے باز رہو ورنہ تمہارا حشر قوم نوح، عادو ثمود سے بدتر ہوگا ۔تم جہنم خریدکررہے ہو ۔اے لوگو! فاطمہ کے لال کوقتل نہ کرو ورنہ تم پر درد ناک عذاب نازل ہوگا جس پر امام عالی مقام نے انہیں داد تحسین ود عادی اور فرمایا کہ یہ یزیدی جہنم خرید کر چکے ہیں اور مستوجب سزا ہو چکے ہیں جس پر حنظلہ یزیدی فوجوں میں گھس کر حملہ آور ہوئے اور منصب شہادت پر فائز ہوئے۔
جناب عابس ابن شبیب شاکری اور ان کے غلام شوذب کے درمیان بروز عاشوراء بڑا عجیب مکالمہ کتب مقاتل میں درج ہے جب عابس نے اپنے غلام سے جہاد کیلئے رائے پوچھی تو شوذب نے کہا اس سے بڑی سعادت کیا ہوگی کہ فرزند رسول ۖ پر قربان ہوجائیں عابس پر عمر بن سعد ابن ابی وقاص نے پتھروں کی بارش کردی مگر جانثار حسین پھر بھی جوانمردی سے لڑتے ہوئے موت کی آغوش میں پہنچا سوید ابن عمرو بن ابی المطاع خثعمی آخری شہیدوںمیں سے ہیں۔
بشیر ابن عمروحضرمی بھی ان اصحاب الحسین میں ہیں جووقت آخر تک نبی ۖزادے کا دفاع کرتے رہے جان نثار سرکار سید الشہداء جناب ابو ثمامہ صیدادی تھے انہوں نے بروز عاشورا اما م حسین سے خواہش کی کہ فرزند رسول ۖ دل چاہتا ہے زندگی کی آخری نماز آپ کی اقتداء میں پڑھ لوں انہوں نے ظہر عاشورہ کی نماز امام عالی مقام کی اقتداء میں ادا کی اور پھر عازم جہاد ہو کر منصب شہادت پر فائز ہوئے اس مختصر حسینی فوج کی نماز کی ادائیگی تک زہیر ابن قیس اور سعید سپر بنے رہے حبیب ابن مظاہر اسدی کی مقاومت کے باوجود یزیدی فوج نماز حسینی میں خلل ڈالنے کی مذموم سازش کرتے رہے تیر اندازی کرتے رہے۔
زہیر وسعید ابن عبداللہ امام حسین پر ہر آنے والے تیر کو اپنے بدن پر کھاتے رہے حتّٰی کہ نماز کے اختتام پر سعید جان بحق ہوگئے۔تیروں کی بوچھاڑ کے باوجود زہیرابن قین نے ایک سو بیس( 120) ملاعین کو واصل جہنم کیا بریر ابن خضیر ہمدانی صحابی رسولۖ تھے۔ زہدوعبادت میں معروف تھے۔ بڑے بہادر تھے۔حر کے بعد رجز پڑھتے میدان کار زار میں نکلے انہوں نے یزید ابن معقل نامی یزیدی کے ٹکڑے کردئیے پھر ساری فوج میدان میں نکل آئی بریر کے حملے نے یزیدی فوج کو اپنے مقتولین کے کشتے اٹھانے سے معذور کردیا تھا ایک سعادت مند جان نثار فرزند رسول ۖ ابو عمر ونہشلی ہیں بعض مقاتل میں ان کا نام حبیب ابن عبداللہ نہشلی درج ہے بعض نے ان کا نام زیاد بن عریب لکھا ہے۔
ابن نمابن کاہل کے علاوہ مہران کا قول ہے میں نے روز عاشور ایک شخص کو برق رفتاری سے قومِ اعداء پر حملے کرتے دیکھا فوجیں تتر بتر ہوئیں میں نے دیکھا یزیدی فوج بھیڑوں کی طرح بھاگتی نظر آئی۔ انہوں نے اتنے کثیر یزیدیوں کو قتل کیا کہ ان کے مقولین کی تعداد شمار نہیں کی جاسکی۔ ایک خوش نصیب ابراہیم ابن حصین ہیں جنہیں سید الشہدائ نے استغاثہ آخر کے وقت نام لیکر پکارا تھا صاحب نفس المہوم نے لکھا ہے کہ انہوں نے 84یزیدیوں کو قتل کیا چاریمنی جوانوں کے نام بھی شہدائے کربلا میں درج ہیں یہ بھائی تھے اور مولائے متقیان کی قضاوت سے متاثر ہو کر حامیان میں آئے تھے۔
ایک نامعلوم شخص کو عمرسعد نے قتل حسین کے لئے بھیجا وہ تائب ہو کر نصرت شبیری میں شہید ہوگیا ، محرق القلوب اورمخزن البکا نامی کتابوں میں قصہ درج ہے نام درج نہیں ہے ادہم ابن امیہ حملہ اولی میں شہید ہوئے ایک اور خوش قسمت بہشتی ابوالشعثاء کندی زید بن مہاجر کے فرزند تھے اور کربلا میں اس قبیلہ کے واحد شہید تھے فن تیر اندازی میں اپنی مثال آپ تھے فن حدیث کے عالم شمار ہوتے تھے۔اس مرد مجاہد نے امام حسین سے حملے کو روکتے وقت گھوڑے کے پاؤں کاٹ دئیے تاکہ حفاظت سید الشہداء میں شہادت کے علاوہ آپشن نہ رہے۔زیارت ناحیہ میں صاحب الزمان نے ان کا نام لیکر سلام فرمایا ہے ، ان کے پاس ترکش میں 100 تیر تھے جن یں 95 نشانہ پر لگے ، چالیس یزیدیوں کو انہوں نے قتل کیا۔
جن 15 لوگوں کا مصداقِ ذبح عظیم نے نام لیکر استغاثہ آخر میں پکارا تھا ان میں ایک سعادت مند اسد کلبی بھی تھے وہ پندرہ نام یہ ہیں۔ علی اکبر ، مسلم بن عقیل ، ہانی بن عروہ ،حبیب بن مظاہر ، زہیر ابن قین ، ابوالشعثاء ، یزید بن زید ، یحییٰ بن کثیر ،نافع بن ہلال ، ابراہیم ، بن حصین ۔ عمر بن مطاع ، اسد ، عبداللہ بن عقیل ابن طرِمّاح۔ مسلم بن عوسجہ ۔ اور حرریاحی، شہدائے کربلا میں امام حسین کے ایک غلام اسلم ابن عمرو ترکی بھی ہیں جنہیں امام عالی مقام نے اپنے فرزند امام زین العابدین کو بخش دیا تھا۔ یہ قاری قرآن اور منشی امام تھے ، انہوں نے ایک ہی حملے میں 70 لوگوں کو قتل کردیاتھا آپ کی روح نے اس وقت پرواز کی جب آپ کا سر فرزند رسولۖ کے زانو پر تھا۔ ابن شہر آشوب نے انیس بن معقل اصبعی کا نام بھی شہداء میں درج کیا ہے۔۔۔جاری ہے