قومیں اور ملک انصاف کی بنیاد پر قائم ہوا کرتی ہیں جن معاشروں میں انصاف بکتا ہو، یا انصاف ناپید ہو۔ ایسے معاشرے ترقی نہیں پاتے۔ہمارا معاشرہ گزشتہ ستر سال سے سسک رہا ہے جہاں غریب اور امیر میں ہر سطح کی تفاوت ہے، انصاف وڈیرے اور امیر آدمی کے پاؤں کی نوک پر ہے۔ غریب آدمی انصاف کے لئے دھکے کھاتا اور ذلت و رسوائی سمیٹتا ہے۔
ملک میں مہنگائی، کرپشن اور بلوں کی بھر مار نے عوام کو پریشان کر رکھا ہے۔ وفاقی اور صوبائی اداروں پر چیک اینڈ بیلنس نہ ہوتو اداروں کے سربراہ منہ زور ہوجایا کرتے ہیں اور ادارے کمزور ہوجاتے ہیں۔
جب ملک میں انصاف نہ ہو تو عوام مایوس نظر آتے ہیں۔ ملک کو ایک ایسے سربراہ کی ضرورت ہے جو خوف خدا رکھتا ہو۔ تبدیلی کے نام پر قوم کو ہر ایک بے بیووقوف بنایا۔ ہر حکومت میں وہی پْرانے کرپٹ مہرے عوامی امْنگوں کا خون کرتے آرہے ہیں۔ ایف آئی اے ہو یا آئی بی، نیب ہو یا پولیس، سیاسی بھرتیوں نے انفراسٹرکچر تباہ کردیا ہے۔ مستقبل کی پلاننگ سے عاری چھچھورے لوگ ملکی معیشت اور نظام حکومت چلاتے آئے ہیں جس نے اقتصادی طور پر مفلوج کردیا ہے۔
جرنیل لوٹ مار کر رہے ہیں ،ججز چوروں اور ڈاکوؤں کو ریلیف دیکر ملک کو تباہی کی طرف لے جارہے ہیں۔ مہنگائی نے غریب عوام کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ روزمرہ اشیاء کی قیمتیں غریب عوام میں پہنچ سے دور ہیں۔ غریب پر ٹیکسوں اور بلوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ امیر ٹیکس نہیں دیتا جس کا بوجھ غریب عوام کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ پی ٹی آئی ترقی کے دعوے، جھوٹے نعرے ہی ثابت ہوئے۔ کرپشن کی انتہا ہے۔ موجودہ کرپشن کو گزشتہ حکمرانوں پر ڈالا جائے گا۔ ویسے پی ٹی آئی نے بھی سارے چور اکٹھے کر لیے ہیں۔ جیالے، پٹواری اور یوتھیے ایک ہی مائینڈ کے مالک ہیں۔ یہ پاکستان کے سیاسی اشرافیہ ، خونی لبرلز اور ننگی ذہنیت کی پیداوار صحافت کے نام کے گندے انڈے الزام مولویوں پر دھرتے ہیں کہ یہ لوگ کرخت ہوتے ہیں۔ طالبان ذہنیت رکھتے ہیں مگر یہ سیاسی بدمعاش اپنے سیاسی مخالفین کو قتل کرواتے ہیں جو انکے نظریہ سے اختلاف کرے انہیں اُٹھوا لیتے ہیں اغوا کر لیتے ہیں جو نوجوان انکے فاشزم کے سامنے کھڑا ہو اْسے غائب کروا دیتے ہیں۔ جیسے شریف خاندان ، بھٹو خاندان، زرداری خاندان، الطاف حسین، رانا ثناء اللہ اور ان پارٹیوں کے رہنماؤں نے ہزاروں سیاسی مخالفین کو قتل کروایا ہے۔ یہ انکا اخلاقی پہلو ہے کہ جو سوال کرے اْسکی زبان بند کردو۔ پارٹی رہنماؤں سے محبت میں اندھے پارٹی ورکرز کو نہ مہنگائی سے ، نہ امن و امان اور نہ ہی انصاف سے غرض ہے۔ اندھے، گونگے اور بہرے جب پارٹیوں کے ترجمان ہوں تو ملک کی ترقی رْک جایا کرتی ہے۔ ملک میں چینی، گندم ، پانی اور بجلی مافیا بے قابو ہوچکا ہے۔ سرکاری زمینوں پر بغیر پلاننگ کے دھڑ ادھڑ کالونیاں بنائی جارہی ہیں، لینڈ مافیا کا ڈان ملک ریاض دندناتا پھر رہا ہے۔ نواز شریف مال کر لندن جا بیٹھے ہیں۔
گزشتہ کئی سالوں سے ملک کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ عوام کا حال اْس فوجی جیسا ہے جو جنگ کے محاز سے ایک روز قبل اپنے ہمسائے کو فون کر کے اپنے گھر کے حالات پوچھتا ہے کہ گھر میں سب خیریت ہے تو ہمسایہ بولا: باقی سب خیریت ہے، بس آپ کا کتا مرگیا ہے۔
فوجی: میرا کتا مرگیا ہے مگر کیسے؟
ہمسایہ: وہ آپ کے مرے ہوئے گھوڑے کا گوشت کھا کر کیسے زندہ رہ سکتا تھا۔
فوجی: تو میرا گھوڑا بھی مرگیا؟
ہمسایہ: بھوک سے مرگیا جناب بھوک سے۔
فوجی: مگر میں نے تو چند دن پہلے پیسے بھجوائے تھے؟
ہمسایہ: وہ تو آپ کی والدہ کے کفن پر لگ گئے۔فوجی: تو کیا میری والدہ کا بھی انتقال ہوگیا ہے؟ ہمسایہ: جی ہاں وہ دو ماہ کے پوتے کا غم کیسے برداشت کرتیں۔
فوجی: اوہ خدایا! تو کیا میرا بچہ بھی مرگیا ہے؟
ہمسایہ: جی ہاں، ماں کے بغیر بھلا بچہ کیسے زندہ رہتا۔ فوجی: تو میری بیوی بھی چل بسی؟ ہمسایہ: جناب گھر کی چھت گری تھی وہ کیسے بچتی۔
“باقی سب خیریت ہے بس یہی پی ٹی آئی حکومت کا حال ہے۔
ہم سال میں ایک تقریر کھڑکا کے کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے آرہے ہیں۔ فوجی ڈکٹیٹروں،مسلم لیگیوں اور پی پی پی نے کئی باریاں لیں، ملک وہیں کھڑا ہے۔ عمران خان نے پی ٹی آئی کے تبدیلی کے نعرے کا مذاق بنادیا ہے، چوروں کی بارات کے ساتھ ریاست مدینہ کا تصور۔
گندم، چینی اور الیکٹرک مافیا کے چور ریاست مدینہ بنانے نکلے ہیں۔
عوام نے ان سب چوروں کو بار بار آزمایا ہے۔ تبدیلی کو آخری اْمید سمجھ کر ووٹ دیا جس نے تمام لْٹیرے جمع کر لئے ، ملک لوٹنے والے چوروں کو ملک سے بھگا دیا، نیب اور ایف آئی کو سیاسی بنا کر احتساب کے نعرہ کو تماشا بنا دیا،عوام تبدیلی سے مایوس ہو چکے ہیں۔
خارجہ اور داخلہ کے محاذ پر ناکامیاں ہی ناکامیاں ہیں۔ بار بار ماضی کی لکیر پیٹی جا رہی ہے لیکن ملک لوٹنے والوں کو سیف راستہ بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ نہ ہی لوٹی ہوئی دولت واپس آئی اور نہ ہی بجلی اور گیس کے بلوں میں ریلیف ملا۔ بجلی کے بل جلانے والے عمران خان صاحب دھرنوں میں کی گئی تمام باتیں بھول چکے ہیں۔ ان کے طبلچی ٹی وی پروگراموں میں بیٹھ کر ریاست مدینہ کا تمسخر اْڑاتے ہیں۔ شرم و حیا سے عاری مراسی نما اینکرز عمران کی قابلیت کے ڈھنڈورے پیٹ رہے ہیںلیکن مہنگائی کی چکی میں پسنے والی عوام کاکوئی پرسان حال نہیں۔
پاکستان کی بقاء اورمستقبل صرف جماعت اسلامی ہے جو باکردار،باصلاحیت نظریاتی اور اخلاقی اقدار کی امین ہے۔ کرپٹ سیاسی کلچر نے بحیثیت قوم ہمیں ذہنی طور پر مفلوج کردیا ہے۔ ہم اپنی فیوچر جنریشن کی پروا کئے بغیر لکیر کے فقیر بنے بیٹھے ہیں۔ ملک سے باہر بھی ہماری اخلاقی حالت پتلی ہے۔
آج یمنی کمیونٹی کی لیڈر شپ سے میٹنگ تھی۔ یمنی کمیونٹی کی لیڈر شپ اپنے بچوں کی تربیت اور یمنی بچیوں کے گھر چھوڑے کے درجنوں واقعات کے بعد لیڈر شپ سر جوڑ کر بیٹھی۔ سکولوں اور کالجز میں بچوں اور بچیوں کی مذہب اور کلچر سے دوری نے والدین اور لیڈر شپ کو پریشان کر دیا ہے۔ گزشتہ مہینوں میں بچیوں کے غائب ہونے کے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ والد ہونے کی حیثیت سے سوچ رہا تھا کہ ہماری کمیونٹی لیڈر شپ نے آج تک اپنی فیوچر جنریش کے لئے نہ کوئی پلاننگ کی ہے اور نہ ہی کبھی بچوں کے ساتھ ورکشاپس کاانعقاد کیاہے۔ جہاں بچوں اور بچیوں کی اخلاقی تربیت کے لئے سیمنار منعقد کئے لیکن کبھی کسی آرگنائزیشن یا سینٹر نے آگے بڑھ کر بچوں اور ماں باپ کے درمیان communications Gabe کے تدارک کا پروگرام نہیں کیا ہے۔ والدین کی تربیت کا بھی کوئی میکینیزم نہیںکہ بچوں اور بچیوں کے ساتھ کیسے ڈیل کرنا ہے۔
یہ بہت بڑا المیہ ہے گزشتہ ہفتے فیملی کونسلنگ کے سلسلہ میں ایک سسٹر کی ہیلپ کے لئے اکنا ہیلپ لائن سے مجھے سسٹر کی داد رسی کی ہدایت ہوئی۔
ہماری کمیونٹی میں کئی لوگ بچوں کو بے یارو مددگار چھوڑ جاتے ہیں۔ فراڈ کرکے بھاگ جاتے ہیں۔ لیکن ہمارا کوئی ایسا نیٹ ورک نہیں کہ ہم ایکدوسرے کی مدد کرسکیں۔ ٹوہ لگانے، بلیک میلنگ کرنے اور دوسروں کو نقصان پہنچانے میں ہماری مہارت ہے۔ مظلوم اور مجبور کے لئے کوئی ایسی ہیلپ لائن نہیں جہاں کسی کی مدد کی جاسکے۔ ہم تصویری مجاہدین ہیں پالیٹیشنز سے تصویروں کے لئے ڈالرز لْٹا دینگے لیکن ضرورت مندوں کی مدد کم خوش نصیبوں کے حصے میں آتی ہے۔ اللہ پاک ہمارے اندر اتحاد ، اتفاق اور محبت پیدا فرمائے (آمین)
٭٭٭