اللہ نے چھیاسی سال کی طویل اور بھرپور زندگی سے نوازا ،کیا کیا اعزازات نہیں بخشے ،سب سے بڑھ کر پاکستان اور اُمت مسلمہ کے لوگوں کا پیار، عزت اور محبت ملی ،مشرف دور میں الزامات لگے ،خود نیشنل ٹی وی پر بیٹھ کر وہ سارے الزامات قبول کئے مگر پاکستانی جسے ایک دفعہ دل میں اُتار لیتے ہیں اسے دل سے نہیں نکالتے کچھ مصلحتیں حکومت وقت کے تقاضے ہوں گے، اس مقام پر جب انسان آ جاتا ہے تو روپیہ پیسہ کوئی معنی نہیں رکھتا ،مقصد ملک کے لیے کچھ کرنے کا ہوتا ہے، ڈاکٹر اے کیو خان نے وہ سب کیا جسکا ان سے تقاضا کیا گیا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کیا ۔یہ سچ ہے کہ ایٹم بم بنانا کسی ایک کے بس کی بات نہیں ہے، اس کے لیے پاکستان جیسی معیشت میں مالی وسائل سب سے بڑی رکاوٹ تھے پھر محنتی ، ہنر مند ، جانثار افراد، سکیورٹی، سائنسدانوں کی ٹیم، مواد، ایٹمی ری ایکٹر، یورینیم کی افزودگی کے طریقہ کار اور بھی بہت کچھ یہ سب کا ملنا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا ،اس پراجیکٹ کے سربراہ کی حیثیت سے ڈاکٹر صاحب نے اسکو مکمل کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیا ”1984 ء میں صرف دس سال کی قلیل مدت میں ہم نے ایٹم بم بنا لیا تھا” ان کے یہ الفاظ آج بھی سماعتوں میں گونجتے ہیں اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ چاغی کی پہاڑیوں نے اپنا رنگ بدلا جس سے ساری دنیا اور خاص طور انڈین حکومتی اور میڈیا کے عہدیداران کی بولیاں ہی بدل گئیں جو طاقت کے بل بوتے پر آزاد کشمیر کو تو چھوڑیں پورے پاکستان کو ہڑپ کر جانا چاہتے تھے ،اپنے سے چار گنا بڑی طاقت کو اپنے برابر لا کر کھڑا کر دینا کوئی معمولی بات ہے ،کیا سوچیں جاپانیوں کے پاس اگر یہ بم ہوتا تو ہیروشیما ناگا ساکی بھبھوکے کی طرح کبھی نہ اڑتا، اُمت مسلمہ نے اسے اسلامی بم کہا پاکستان پر پابندیاں لگیں مگر ہم برداشت کر گئے، مشکل وقت گزر گیا، میزائل پروگرام نے تو دشمنوں کی نیندیں تک اُڑا دیں، یہ سب ڈاکٹر صاحب کی عملی کوششوں اور شبانہ روز محنت ہی کا نتیجہ تھا، ریٹائر ہو کر بھی وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہے، انہوں نے تعلیم پر بھی بہت کام کیا گیارہ مساجد مقبرے کئی ایک سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا افتتاح کرنے کے ساتھ معاونت بھی کی علم و ادب سے گہرا شغف کہ دل میں کچھ رہ نہ جائے ، روزنامہ جنگ میں کالم نگاری سے دنیا کو آگاہی بخشی ،فلاحی کاموں کے علاوہ ہسپتالوں کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات بھی کئے ،وہ تو بجلی کے منصوبوں پر بھی اپنی خدمات انجام دینا چاہتے تھے ،انسان اگر ٹھان لے تو اللہ نے اشرف المخلوقات میں بڑی طاقت رکھی ہے ،اے کیو خان لیبارٹریز اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے بہت سی سیاسی پارٹیوں نے کوشش کی کہ وہ سیاست میں بھی اپنے قدم جمائیں جیسے عبد الکلام انڈین ایٹمی سائنسدان کو ہندوستان کا صدر بنا دیا گیا تھا ،خان صاحب کی بھی خواہش رہی مگر اچھا ہی ہوا کہ انہیں ایسا موقع نہیں مل پایا ورنہ شاید انکا رتبہ پاکستانی سیاست کی نظر ہو جاتا مگر جسے اللہ چاہے رب العزت نے دنیا میں انہیں بے حد عزت اور شہرت سے نوازہ دعا ہے کہ اللہ سبحان و تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں بھی اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین
٭٭٭