سیاسی جماعتوں کی اندرونی توڑ پھوڑ اور نتائج!!!

0
122
پیر مکرم الحق

پاکستان کی تخلیق سے ہی سیاسی جماعتوں کو سنبھلنے کی مہلت نہیں دیگی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت نوکر شاہی کے لوگوں کو سیاسی جماعتوں پر مسلط کرکے ملکی سیاسی نشوونما پر کاری ضرب لگائی گئی جبکہ ہندوستان ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا وبا نظام کو مضبوط کیا گیا۔ریاست کے تمام اداروں میں ہم آہنگی پیدا کی گئی تاکہ ملک مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہوسکے لیکن بدقسمتی سے ہمارے نصیب میں جنرل ایوب خان آگئے جو پہلے دن سے ہی اعلیٰ ترین مسند پر نظر رکھے ہوئے تھے۔قائداعظم کی ذہین نظروں نے بھانپ لیا تھا کہ یہ شخص اقتدار کا متمنی ہے اور یہ سویلین حکمرانی کو پنپنے نہیں دیگا انہوں نے اسے اقتدار سے دور رکھنے کی کوششیں کی لیکن اس کوشش میں انہیں وقت سے پہلے دنیا سے رخصت ہونا پڑا۔قائد کے رفیق خاص لیاقت علی خان کو بھی زیادہ وقت زندہ رہنے نہیں دیا۔لیاقت باغ میں کرائے کے قاتل سید گل کی گولی کا نشانہ بنا دیا گیا۔بوگرہ۔اسکندر مرزا کے ذریعے نوکر شاہی کی حکومت نافذ کی گئی لیکن پھر ایوب خان نے گن گن کر اپنے محسنوں کو فارغ کیا اور ملت پر پوری طرح قابض ہوگئے۔الطاف گوہر، خواجہ شہاب الدین اور علی محمد راشدی ان کے مصاحب خاص بنے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب حضرات اپنے اپنے کالم کام کے ماہر ترین لوگ تھے۔جنرل ایوب کو شاہ ایران کی طرز پر بادشاہت لانے کا مشورہ دیا گیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو بھی ایوب خان کے وزراء میں شامل تھے لیکن تاریخ کو مسخ کرنے والے نہایت غلط بیانی کے مرتکب ہوتے ہیں جب کہتے ہیں کہ بھٹو کو وزیر ایوب خان نے بنایا اور سیاست میں بھی ایوب خان لائے ہے سراسر بہتان ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کے جد امجد سیاست کے میدان کے کھلاڑی رہتے آئے ہیں۔ان کے والد سرشاہنواز بھٹو قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی تھے۔پاکستان بننے سے پہلے ہی سرشاہنواز بھٹو نے سندھ پیپلزپارٹی کی تشکیل دی تھی اور ذوالفقار علی بھٹو اسکندر مرزا کی کابینہ میں پہلی مرتبہ بطور کابینہ کے وزیر شامل ہوئے تھے اور بعد میں ایوب خان نے انہیں اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ایوب خان سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو سندھ کے ایک روایتی جاگیردار سمجھتے ہوئے یہ سمجھے بیٹے کہ انہیں بھی ڈرا دھمکا کہ بٹھایا جاسکتا ہے۔لیکن انہیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ وہ بھٹو سے ملکر خود کو جلا ڈالیں گے۔پاکستان پیپلزپارٹی کی تشکیل کے بعد جس تیزی سے ذوالفقار علی بھٹو پاکستانی سیاست پر چھا گئے اس بات نے اسٹیبلشمنٹ کو پریشان کرکے رکھ دیا۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور فوجی سرینڈر کی فلم کے ٹی وی پر نشر کئے جانے کے بعد ہی فوج میں اعلیٰ ترین سطح پر ہے ذہن بن گیا تھا کہ بھٹو ان کے اقتدار کیلئے ایک خطرہ بن چکا تھا اسے راستے سے ہٹانا ضروری تھا۔جس پر عمل کروانے کے لئے عالمی بڑی طاقت کا سہارا لیا گیا تاکہ یہ کہا جاسکے کہ ہم بے بس تھے۔لیکن انہیں احساس نہیں تھا کہ مرا ہوا بھٹو زندہ بھٹو سے خطرناک ثابت ہوا۔بھٹو کے بعد ان کی پارٹی کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔مہاجر قومی موومنٹ کی تشکیل سمیت فرقہ واریت پر مبنی جماعتوں کا وجود سب پی پی پی سمیت بڑی سیاسی جماعتوں کے غبارے سے ہوا نکالنے کی کوشش تھی جو اداروں کے اکابرین نے بڑی سوچ بچار کے بعد بنائی گئی حکمت عملی کا حصہ تھی۔عوام کے مخص نمائندوں کو اقتدار سے دور رکھنے کیلئے کیا کیا جتن کئے گئے، جڑ تو پارٹیاں اور دو نمبر سیاسی رہنما یا ٹیسٹ ٹیوب لیڈر بنائے گئے۔ملک اور کمزور ہوتا گیا حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تمام مکاتب فکر کے چیدہ چیدہ لوگوں کو اکٹھا کر کے ایک مخلصانہ اور حقیقت پسندانہ ریاستی حکمت عملی بنائی جاتی جس میں ملکی مفاد کو تمام مفادات پر فوقیت دی جاتی اور ذمہ داریوں کو اپنے اپنے میدان میں مہارت رکھنے والوں کے درمیان بانٹ کر تمام سیاسی جماعتوں کو لڑانے کے بجائے یکجا کرکے اسی منصوبہ سازی کی جاتی کے مالک ترقی کی راہ پر گامزن ہوپاتا۔لیکن اداروں نے اپنے اپنے مفادات کو پالا سیاستدانوں کی خریدوفروختت کرکے انہیں محب وطنی کے بجائے مالی فوائد کی رغبت پیدا کی آج وہ بکائو مال سیاستدان(Electale)ہوگئے جس کی حکومت بنانی یا گرانی ہے۔انہیں بکائو سیاستدانوں کو اپنے مہروں کی طرح استعمال کیا جاتا ہے ملکی معمالات عوامی مفادات ترقی اور وفا کی راہ کو ترک کرکے ملکی جڑیں کھوکھلی کی جارہی ہیں۔یہ سوچ نہیں آخر کب تک یہ جھوٹ اور دھوکے کا کھیل کھیلا جاسکے گا۔جس درخت کی چھائوں میں بیٹھے ہو اسی درخت کی ان ٹہنیوں کو کاٹتے جارہے ہو جسکی وجہ سے تم آرام سے بیٹھے ہو۔آخر کب تک عوام مہنگائی بیروزگاری لاقانونیت حقوق کی پامالی طبقاتی ناہمواری پرخاموش رہے گی۔پانی کا دبائو جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو مضبوط بند بھی تڑاخ کرکے بکھر جاتے ہیں۔جب عوام کے غیض وعضب کا سیلاب بپھر جائے تو ایوان اقتدار کے سارے مکینوں کو بہا کر لے جائیگا۔پھر نہ کہنا کہ ہمیں خبر نہیں ہوئی کسی عمران نواز یا زرداری کے پیچھے چھپ نہ سکو گے!!!۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here