محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے قارئین سے درخواست ہے گھنٹوں نیٹ پر اپنا وقت بیکار میں بربادکرنے کے ایک دس منٹ ایسی پوسٹس بھی پڑھا کریں جس سے آپ کو دین و دنیا کا فائدہ حاصل ہوگا برکات حاصل ہونگی طمانیت قلب حاصل ہوگی اور علم و آگہی میں اضافہ ہوگا ہم ہفتہ وار ایک دو آیات مع ترجمہ اور تفسیر بغور پڑھیں گے تو ہمارے علم و عمل میں کافی اضافہ ہوگا۔اللہ پاک ہم سب کو قرآن مجید پڑھنے اور سمجھنے کی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین ۖ۔
***** تفسیر سور البقرہ *********
****تفسیر : صراط الجنان*****
ترجمہ : کنزالعرفان: اور اہل کتاب نے کہا : ہرگز جنت میں داخل نہ ہو گا مگر وہی جو یہودی ہو یاعیسائی۔ یہ ان کی من گھڑت تمنائیں ہیں ۔ تم فرمادو: اگرتم سچے ہوتو اپنی دلیل لاو۔تفسیر : صراط الجنان: (لن یدخل الجن : ہر گز جنت میں داخل نہ ہوں گے۔} یہودی مسلمانوں سے کہتے تھے کہ جنت میں صرف یہودی جائیں گے اورعیسائی کہتے تھے کہ صرف وہی جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ گفتگو مسلمانوں کو بہکانے کے لئے تھی، ان کی تردید میں یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی جس میں فرمایا گیا کہ ان کی یہ بات ان کی اپنی رائے سے ہے، توریت و انجیل میں ایسا کچھ نہیں فرمایا گیا اگر وہ سچے ہیں تو اپنی اس بات پر کوئی دلیل لائیں۔
امانِ ہم : ان کی من گھڑت تمنائیں۔ } بغیر کسی بنیاد کے جنت میں داخلے کے زبانی دعوے کرنا جہالت و حماقت ہے۔ ایک امیدہے جسے عربی میں رجا کہتے ہیں اور ایک خام خیالی ہے جسے عربی میں امنِیہ کہتے ہیں۔ امام غزالی رحماللہِ تعالی علیہِ نے اس موضوع پر بڑا پیارا کلام ارشاد فرمایا ہے۔ اس کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں۔ چنانچہ آپ رحم اللہِ تعالی علیہِ فرماتے ہیں : رجا یعنی امیددل کی اس راحت کا نام ہے جو محبوب چیز کے انتظار سے حاصل ہوتی ہے لیکن یہ محبوب جس کی توقع کی جا رہی ہے ا س کا کوئی سبب ہونا چاہئے لہٰذا اگر اس کا انتظار اکثر اسباب کے ساتھ ہے تو اسے رجا یعنی اُمید کہتے ہیں اور اگر اسباب بالکل نہ ہوں یااضطراب کے ساتھ ہوں تو اسے اُمید نہیں بلکہ دھوکہ اور بیوقوفی کہا جائے گا اور اگر اسباب کے ہونے یا نہ ہونے کا علم نہ ہو تواس انتظار کو تمنا کہتے ہیں۔ اہلِ دل حضرات جانتے ہیں کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور دل زمین کی طرح ہے ، ایمان اس میںبیج کی حیثیت رکھتا ہے اور عبادت زمین کو الٹ پلٹ کرنے، صاف کرنے اور نہر یں کھودنے اور ان زمینوں میں پانی جاری کرنیکی طرح ہیں اور دل جو دنیا میں غرق اور ڈوبا ہوا ہے اس بنجر زمین کی طرح ہے جس میں بیج کوئی پھل نہیں لاتا اور قیامت کا دنفصل کاٹنے کا دن ہے اور ہر شخص وہی کاٹے گا جو اس نے بویا ہو گا اور کھیتی کا بڑھنا ایمان ہے۔
٭٭٭