شفاف انتخاب ہی بحران کا حل!!!

0
162
جاوید رانا

عزیزان کرام! جس وقت ہمارا یہ کالم آپ کے زیر مطالعہ ہوگا، رمضان المبارک کی مقدس و مبارک ساعتیں تکمیل کے مراحل میں ہوں گی اور اُمت کی عبادات و تزکیہ نفس کا انعام عید الفطر کی صورت تشکر، مسرتوں اور مواخات میں مل رہا ہوگا۔ ہماری اور پاکستان نیوز کی جانب سے ساری اُمت، تمام قارئین کو صمیم قلب سے عید الفطر کی مبارکباد اور دعا ہے کہ اللہ کریم آپ اور آپ کے پیاروں کی عبادات کو قبولیت عطاء فرمائے اور انفرادی و اجتماعی طور پر ہر نعمت و مسرت سے نوازے۔ آمین۔
27 رمضان المبارک کی مبارک و مسعود اور قبولیت کی شب وطن عزیز پاکستان کے قیام و مسلمانان برصغیر کی غلامی سے آزادی کی صورت میں اللہ تعالیٰ کا انعام عظیم ہے اور شکر المحمد اللہ کہ 75 سالوں میں ہر دُشواری، ہر قدغن و کٹھنائی کے باوجود دنیا کے واحد نیو کلیائی اسلامی ملک کے طور سے اور تمام وسائل کی دستیابی اور فراوانی کا حامل ہے لیکن کیا اللہ کریم کی اس نعمت خداوندی کی ترقی، خوشحالی اور عالمی اہمیت کے تیقن کیلئے ہم بحیثیت قوم اپنا ملی کردار ادا کر رہے ہیں۔ دین مبین کے مطابق حاکمیت صرف اللہ کی ہے اور انسان کو روئے زمین پر اس کا خلیفہ بنا کر نظام چلانے کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے۔ غور کیجئے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس وقت جو قومی سیاسی، معاشی، معاشرتی و تہذیبی صورتحال اور ملکی نظام و انصرام کے ذمہ داروں، رہنمائوں کے اعمال، روئیے اور اقدامات دین مبین کے احکامات کی پیروی کے مطابق ہیں۔ ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں وطن عزیز کے ناگفتہ بہ سیاسی و معاشرتی اور معاشی معاملات کے حوالے سے جس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ہمارے سیاسی و مقتدر زعماء کے موجودہ روئیے اور اخلاقی کردار ملک کو معاشرتی و سیاسی بگاڑ کی طرف دھکیل رہے ہیں جو ملکی وحدت کی تکفیر، انتشار اور انارکی کا سبب بن سکتے ہیں اور عرض کیا تھا کہ اس صورتحال کے خاتمے کا واحد حل تمام ریاستی، سیاسی و عوامی طبقات کے درمیان تحمل، برداشت اور فوری شفاف انتخابات کے انعقاد میں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری یہ عرضداشت صدابہ صحراء ہی ثابت ہوئی ہے۔ عمران خان کیخلاف درجن بھر سیاسی بھان متی کے کنبے کی عدم اعتماد تحریک کی کامیابی اور اس پر وطن عزیز و دنیا بھر میں عوامی احتجاجی رد عمل کے باوجود ساجھے کی حکومت کا قیام ملک کو درپیش سیاسی، معاشی اور معاشرتی و عوامی انتشار و بے یقینی کو مزید فزوں تر کر رہا ہے۔ سیاسی منافرت و مخالفت کی بدترین و بے یقینی کی کیفیت نے ملک و قوم کو اسٹینڈ اسٹل کی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے اور بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ ملکی ابتری کی شدت بہت سے بحرانوں کو جنم دینے کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس کا کوئی فوری اور متعینہ حل نظر نہیں آتا ہے۔
موجودہ اتفاقی و بظاہر عارضی حکومت کے بعض سیاسی و مفاداتی اقدامات اور نزاعی فیصلے اور سابق وزیراعظم کے عوامی احتجاج اور اداروں پر انگشت نمائی نے آئینی، انتظامی اور سیاسی بحرانوں کو دعوت دے دی ہے۔ ایک جانب سب سے بڑے صوبے میں وزیراعلیٰ کے حلف پر عمل نہ ہونے اور عدالتی و آئینی موشگافیاں صوبے کے معاملات پر عدم عمل کی صورت میں ہے تو دوسری جانب مرکز میں قائد حزب اختلاف کے انتخاب میں سابقہ حکومتی منحرفین اور حلیف نمائندوں کے درمیان کشمکش و رسہ کشی کے باعث قومی اسمبلی کی تکمیل ہنوز تشنہ ہے۔ یہ آئینی بحران تو اپنی جگہ دوسری جانب لیٹر اسکینڈل پر این ایس سی دوبارہ اجلاس کا انعقاد اور گزشتہ اعلامیہ کی توثیق نیز کسی سازش کی تردید کے بعد جہاں ہر دو سیاسی فریق اس کو اپنے جواز کی کامیابی قرار دے رہے ہیں، وہیں اس حوالے سے اسٹیبلشمنٹ اور حساس اداروں پر بھی سوال اُٹھ رہے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے نمائندہ کے واضح بیان کہ ہمارے حساس اداروں و ایجنسیز کی موجودگی میں وطن کیخلاف کوئی سازش ممکن نہیں اور اگر کسی نے میلی آنکھ سے دیکھا تو وہ آنکھ ہی نکال دی جائے گی کے باوجود تنازعہ حل نہیں ہو پا رہا کیا یہ ممکن نہیں کہ سازش اور مداخلت کا جھگڑا تمام متعلقہ فریقین بشمول سابق وزیراعظم کے درمیان مفاہمت سے نپٹا لیا جائے اور اسے احتجاج و انتشار کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا سیاسی و ریاستی منظر نامہ گزشتہ کئی دہائیوں سے کبھی بھی شفاف نہیں رہا اور اس میں ہمارے سیاسی مفاد پرست طبقہ کیساتھ ریاستی، عدالتی، انتظامی، ابلاغ کے پردہ نشینوں کے نام اور کردار بھی کسی سے مخفی نہیں۔ ہماری سیاست کی مثال اس طوائف جیسی ہے جس کا ہر گاہک اور تماشبین اسے اپنی مرضی و خواہش کے مطابق استعمال کرتا ہے اور طوائف بے بس و بے کس ہوتی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں کے واقعات و اقدامات کا تجزیہ کریں تو ایک چیز کار فرما نظر آتی ہے، نظریۂ ضرورت و مصلحت، مارشل لائوں، عدالتی قتل و سزائیں یا بریت، ماڈل ٹائون، بلدیہ، ساہیوال وغیرہ سے قتال یا ملزمان، بدعنوانوں کو ضمانت و بریت کے فیصلے یا جُھرلو، آرٹی ایس و دیگر طریقہ ہائے کار سے انتخابی جیت یا ہار سب کی بنیاد ضرورت و مصلحت کے فارمولے پر ہی ہوئی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں آنیوالی اس موقع پرست حکومت کے چند حالیہ اقدامات و فیصلے ہی دیکھ لیں تو ہماری متذکرہ عرضداشت کی صداقت آپ پر آشکار ہو سکتی ہے۔ ای سی ایل سے تمام اپنوں کے بشمول داوڑ نام نکالے جانا نا اہل و مفرور مجرم کو خصوصی پاسپورٹ کا اجراء اور پورے خاندان بمعہ ملازمین و سپورٹرز کا ادائیگی عمرہ کا اقدام کیا کسی با اصول اور قانون کی حکمرانی پر یقین و عمل کرنے والے معاشرے یا ارباب اختیار و اقتدار کے مستحسن کام قرار دیئے جا سکتے ہیں۔
ہمارا تجزیہ اور حالات کی سنگینی کا ماحاصل ہمارے نزدیک یہی ہے کہ متوقع مستقبل کی سنگینی اور بحران کا سدباب جلد از جلد شفاف اور منصفانہ انتخابات ہیں جن کی بنیاد تمام فریقین کے اتفاق پر ہو ورنہ ہنگامہ پروری، آئین و قوانین کی پامالی اور بد نظمی و مفاداتی اقدام کا بھوت سارے ملک اور قوم کو تباہی کے اس دہانے پر پہنچا دے گا جہاں سے واپسی محض ایک خواب ہی ہو سکتی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here