ورلڈکپ فائنل میں پاکستان ٹیم جس طرح پہنچی وہ تمام کرکٹ کی دنیا جانتی ہے، جہاں تک کارکردگی کا تعلق ہے سیمی فائنل میں جس طرح ہماری ٹیم کھیلی اس نے ہمیں فائنل میں پہنچا دیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں نیدر لینڈ کی صورت میں ایک نادر موقع فراہم کر دیا جس نے سائوتھ افریقہ کو ہرا کر ہمیں سیمی فائنل میں پہنچا دیا اور فائنل میں جو ہم نے کھیل پیش کیا سب سے پہلے تو یہ سوال ہوتا ہے کہ شاہین شاہ آفریدی جب فٹ نہیں تھا تو اس کو صرف اس لئے قربانی کا بکرا بنا دیا کہ وہ ہماری ٹیم کا وننگ بائولر ہے اور اس نے ان فٹ ہونے کے باوجود اپنے پہلے اوور میں وکٹ لے کر ثابت کر دیا کہ وہ واقعی دنیا کا بہترین بائولر ہے لیکن جس طرح وہ فیلڈ سے واپس گیا ہے وہ ہمارے لئے بہت ہی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ہم نے اس کھلاڑی کو دائو پر لگا دیا جو کہ ہماری ٹیم کا بہترین بائولر ہے اگر خدانخواستہ اس کی انجری بڑھ جاتی ہے اور وہ سال دو سال کرکٹ سے باہر رہتا ہے تو پھر اس کا واپسی کرنا تو اس کیلئے بہت مشکلات پیدا کر دیگا ہماری کرکٹ کی کنٹرول بورڈ کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے تھا کہ وہ اگر فٹ نہیں تھا اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ وہ فٹ نہیں تھا جبکہ ہمارے پاس دو فاسٹ بائولر اور موجود تھے، حسنین اور شاہ نواز دانی لیکن آپ لوگوں نے شاہین شاہ آفریدی کیساتھ بہت بڑا ظلم کیا ہے، اس کو کھلا کر صرف اور صرف ا پنی جیت کی خاطر اس کو کھلایا۔ اس کے بعد اس کا کیا حال ہوتا ہے یہ آپ لوگوں کی زیادتی تھی۔ اللہ تعالیٰ شاہین آفریدی کو جلد از جلد صحتیاب کر دے آمین۔ اب ہم آتے ہیں فائنل کی طرف سیمی فائنل میں جس طرح بابر اور رضوان نے بیٹنگ کی اس سے تو یہی لگ رہا تھا کہ وہ فائنل میں بھی وہی کارکردگی دکھائیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا یہ ہم مانتے ہیں کہ بابر اعظم دنیا کا بہترین کھلاڑی ہے لیکن یہ بات اس کے ذہن میں کیوں نہیں آتی کہ وہ اوپنر نہیں ہے جبکہ ہمارے پاس شرجیل خان اور فخر کی صورت میں دو بہترین بیٹر اوپنر موجود ہیں۔ شرجیل کو تو موقع ہی نہیں ملا وہاں جانے کا لیکن فخر بھی انجری کا شکار ہوگیا۔ فائنل کا گرائونڈ بڑا گرائونڈ ہے وہاں چھکا مارنا آسان نہیں ہے۔ رضوان جس طرح آئوٹ ہو اور اس کے بعد محمد حارث نے آ کر جس طرح کھیلنا شروع کیا وہ تو ابھی تجربہ کار نہیں ہے، کپتان کو چاہیے تھا کہ اس کو سمجھاتا کہ آرام سے کھیلو سنگل ڈبل کرو اور وہ کس طرح آگے بڑھ بڑھ کر کھیل رہا تھا ۔اسی وقت پتہ چل رہا تھا کہ یہ اسکور نہیں کریگا لیکن ہمارے کپتان کو تو اپنی اننگ سے مطلب تھا، اس نے ایک دفعہ بھی اس کو نہیں سمجھایا اور وہ آئوٹ ہو گیا۔ عادل رشید نے جس طرح بائولنگ کی وہ بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے جس طرح ہمارے سینئر کھلاڑی افتخار جو جارحانہ انداز میں کھیلتے ہیں ،عادل رشید کے سامنے بے بس نظر آئے ان کو گیند ہی سمجھ نہیں آرہی تھی اور پورا اوور میڈن کروا دیا اور اس پر ستم ہمارے کپتان نے جس طرح اپنی وکٹ گنوا دی اور وہ گوگلی کو سمجھ ہی نہ سکے اور سیدھا ہاتھوں میں کیچ دیدیا۔ اس کے بعد تو لائن ہی لگ گئی سوائے شان مسعود اور شاداب کے کوئی بھی وکٹ پر نہیں ٹھہر سکا اور پاکستانی ٹیم 137 رنز پر ڈھیر ہو گئی ۔اسی وقت لوگ بد دل ہو گئے تھے کہ اب انگلینڈ آسانی سے پاکستان کو ہرا دے گا لیکن ہماری بائولنگ نے جس طرح انگلینڈ کو دبائے رکھا وہ بہت بڑی بات ہے جس طرح ہیلز کو شاہین آفریدی نے بولڈ کیا ،میچ پاکستان کے ہاتھ میں آگیا تھا اور انگلینڈ کا سکور بھی اتنا نہیں تھا لیکن جس طرح شاہین آفریدی ایک بال کروا کر واپس چلا گیا وہی ہمارا ٹرننگ پوائنٹ تھا ،اس کی جگہ افتخار کو بلایا گیا جبکہ اس وقت نواز کو لانا چاہیے تھا، نہ جانے بابر کو نواز سے کیا اختلاف ہو گیا کہ اس نے اسے سیمی فائنل میں بھی بائولنگ نہیں کروائی جبکہ و ہ شاداب سے اچھا بیٹسمین ہے اس کو بیٹنگ پر بھی دیر سے بھیجا گیا وہ وہی اوور تھا جو افتخار نے 13 رنز دے کر گیم انگلینڈ کے حق میں کر دی۔ ہماری بائولنگ بہت اچھی رہی اگر ہم 15 رنز اور زیادہ کر دیتے تو یہ کپ کہیں نہیں جاتا بہر حال ہمارے کپتان کی ناقص کپتانی نے یہ ورلڈکپ ہمارے ہاتھ سے نکلوا دیا۔ فیلڈ میں کہیں بھی کپتان کپتانی کرتے ہوئے نظر نہیں آئے ہمارے کرکٹ بورڈ کو سوچنا چاہیے کہ بابر کو کپتان رکھنا ہے یا نہیں کیونکہ اس کی بیٹنگ بھی کپتانی کے بوجھ سے متاثر ہو رہی ہے۔ شاداب، رضوان اور شان مسعود میں سے کسی ایک کو کپتان بنا دینا چاہیے۔ تینوں فارمیٹ میں ایک ہی کپتان نہیں ہونا چاہیے بہرحال غلطیوں سے ہی سیکھنا ہوتا ہے اب انگلینڈ کی ٹیم پاکستان آرہی ہے ٹیسٹ سیریز کھیلنے ہمارے سلیکٹرز کو اس پر سوچنا ہوگا۔
٭٭٭