آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے بھارتی قیادت کے حالیہ غیر ذمہ دارانہ بیانات کا نوٹس لیتے ہوئے بھارت کو انتباہ کیا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج ناصرف مادر وطن کا دفاع کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہیں بلکہ جنگ مسلط کئے جانے کی صورت میں دشمن کو بھر پور جواب دیا جائے گا، یہ بھی کہا کہ ایسی صورت میں اس کے علاقے میں جا کر ماریں گے۔آئی ایس پی آر کی جاری تفصیلات کے مطابق لائن آف کنٹرول پر رکھ چکری سیکٹر کے دورہ کے موقع پر آرمی چیف نے کہا کہ پاک افواج کو پرعزم قوم کی حمایت حاصل ہے اور بھارت اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو گا۔پوری قوم یقینا اپنی افواج کے شانہ بشانہ قومی سلامتی کو درپیش ہر خطرے کا مقانلہ کرنے کو تیار ہے۔ یہ بد قسمتی ہے کہ بھارت تلخ بیانات کے ذریعے دو طرفہ تعلقات کو مزید کشیدہ بناتا رہتا ہے ۔بھارت کی جانب سے چند ہفتوں کے دوران آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کے علاقے چھین کر اپنا حصہ بنانے جیسے بیانات آتے رہے ہیں۔پاکستانی دفتر خارجہ نے ان بیانات کی مذمت کی اور انہیں خطے میں کشیدگی بڑھانے والا قرار دیا۔ حکومت سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ ان بیانات کا سیاسی و سفارتی انداز میں موثر جواب دے گی لیکن کمزور سے لہجے میں مذمت کر کے معاملہ چھوڑ دیا گیا۔پاکستان کی سلامتی اور کشمیر معاملے پر قوم جس قدر حساس ہے حکومت نے اس حساسیت کا ادراک نہیں کیا۔یہی وجہ ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے بیان کو سراہا جا رہا ہے بلکہ اسے پاک فوج کے نئے سربراہ کی ترجیحات کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے تنازع کشمیر پر طے شدہ معاملات میں بگاڑ پیدا کرنے کا سلسلہ ایک حکمت عملی کے طور پر آگے بڑھ رہا ہے۔ کشمیر کے باشندوں کی مرضی کے خلاف ریاست پر قبضہ کے لئے افواج بھیجنا اور پھر قابض ہو کر کشمیر کے حکمران سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرانا بین الاقوامی قانون کے مطابق غاصبانہ طرز عمل تھا۔ بھارت کے قبضے کے خلاف کشمیری باشندوں نے مزاحمت کی۔ پاکستان کے عوام نے کشمیری حریت پسندوں کا بھر پور ساتھ دیا اور ان کے حق خود ارادیت کی حمایت کی۔ اس حمایت کی وجہ سے بھارت نے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کی تو پاک فوج نے بھر پور جواب دیا۔کشمیر کا وسیع علاقہ بھارتی قبضے سے آزاد کرا لیا گیا۔یہ علاقہ آج آزاد کشمیر کہلاتا ہے۔بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو اقوام متحدہ چلے گئے۔قریب تھا کہ پورا کشمیر آزاد کرا لیا جاتا مگر سلامتی کونسل نے بھارت کی درخواست پر جنگ بندی کی قرار داد منظور کر لی۔پاکستان اور کشمیریوں کو بھارت نے یقین دلایا کہ تنازع کا حل استصواب رائے سے نکالا جائے گا۔سلامتی کونسل اس معاہدے کی ضامن بنی لیکن آج 75برس ہونے کو آئے ،1948 میں منظور کی گئی قرار دادوں پر عملدرآمد کی صورت نہیں نکلی۔اس دوران بھارت نے پاکستان پر جنگیں مسلط کر کے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی حیثیت بدلنے کی کوشش کی۔5اگست 2019 کو بی جے پی کی انتہا پسند حکومت نے بھارتی آئین میں کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر دیا۔شق370 اور 35 اے کے خاتمہ کا مطلب گویا یکطرفہ طور پر یہ قرار دینا ہے کہ کشمیر اب پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع معاملہ نہیں رہا۔اس سلسلے میں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بھارت نے 5اگست کا فیصلہ کرنے سے پہلے فروری 2019 میں لڑاکا طیاروں کے ذریعے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا۔پاکستانی شاہینوں نے اگلے دن بھارت کے 2طیاروں کو مار گرایا اور ایک ہوا باز کو گرفتار کر لیا۔ بھارت اپنی معاشی طاقت اور حیثیت کو خطے کے دیگر ممالک کی سلامتی کو خطرات سے دوچار کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔حال ہی میں امریکہ نے مذہبی آزادیوں کے حوالے سے رپورٹ میں بھارت میں خراب صورتحال بیان کی ہے۔یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی طرف سے بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اقلیتوں پر مظالم اور مقبوضہ کشمیر میں نہتے باشندوں کے خلاف طاقت کے بہیمانہ استعمال کی مذمت کی جا رہی ہے۔اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ اپنی قرار دادوں پر عمل کراکر کشمیری باشندوں کو بھارتی جبر سے نجات دلائے۔ مسلح افواج کا کام لڑنا ہوتا ہے۔فوج کا سربراہ لڑنے کی بات ہی کرتا ہے۔امن سفارتی حل اور مذاکرات کے معاملات سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔پاکستان دفاعی صلاحیت کے اعتبار سے بھارت کا مقابلہ کر سکتا ہے۔فوجیوں کی تعداد اور ہتھیاروں کے ڈھیر کی بجائے تزویراتی توازن پاکستان کے حق میں ہے۔جنرل عاصم منیر نے منصب سنبھالنے کے بعد اپنی ترجیحات کا تعین کر دیا ہے۔وہ خود کو سیاسی معاملات سے الگ کر کے فوج کی پیشہ وارانہ صلاحیت پر توجہ دے رہے ہیں۔ بھارت جارحیت پسند ملک ہے۔ضروری ہے کہ اس کے بزدلانہ بیانات کا جواب سخت اور موثر انداز میں دیا جائے۔جب تک بھارت کو اپنے مفادات خطرے میں نظر نہیں آئیں گے مودی حکومت کو مذاکرات کی اہمیت کا احساس نہیں ہو سکتا۔ قوم نئے سپہ سالار کے بیان کا خیر مقدم کرتی ہے۔بھارت کو یہ پیغام جانا ازحد ضروری ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک کے لئے خطرات پیدا کرنے سے باز رہے اور اگر اس نے اپنی روش نہ چھوڑی تو صورتحال کا خمیازہ بھگتنے کے لئے اسے خود بھی تیار رہنا ہو گا۔
٭٭٭