فٹ بال ورلڈ کپ ہمیشہ کی طرح دنیا بھر میں مقبول اور مداحوں کی توجہ کا مرکز رہتا ہے لیکن اس مرتبہ اس ورلڈ کپ اس لیے بھی دنیا بھر میں خصوصی اہمیت ملی کی اس کی میزبانی پہلی مرتبہ ایک اسلامی ملک کے حصے میں آئی ، قطر نے بہترین انتظامات، عالمی معیار کے سٹیڈیمز کی تعمیر اور جدید سہولیات سے کسی طور پر بھی یہ عیاں ہونے نہیں دیا کہ فٹ بال ورلڈ کپ اس مرتبہ کسی اور ہی مقام پر منعقد ہوا ، بلکہ میچز سے یہی تاثر ملا کہ انٹرنیشنل کھلاڑی کسی ترقی یافتہ اور جدید ملک میں میچز کھیل رہے ہیں۔قطر نے فٹ بال ورلڈ کپ کے انعقاد میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی، بلکہ کئی یورپی ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، پوری تہذیب، قانونی دائراختیار میں شائقین نے میچز دیکھے ہیں ورنہ ہلڑ بازی، بد نظمی، لرائی جھگڑے عام سی بات ہیں، لیکن قطر میں ایسا ابھی تک کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔میگا ایونٹ اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے، ایونٹ میں کوارٹر فائنل مرحلہ شروع ہونے کو ہے، اب تک بڑے اپ سیٹ ہوئے ،کئی معروف ٹیموں کو ایونٹ سے باہر نکلنا پڑ گیا ہے جس میں چار مرتبہ کی عالمی چیمپئن جرمنی کی ٹیم بھی شامل ہے جوکہ اگلے رائونڈ تک کوالیفائی نہیں کر سکی ، اس کے علاوہ کوسٹا ریکا، بیلجئم، سربیا، گھاناکی ٹیمیں بھی اگلے رائونڈ میں جگہ نہیں بنا سکیں۔فٹ بال ورلڈ کپ کے لیے قطر نے مجموعی طور پر 8 سٹیڈیم استعمال کیے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سٹیڈیمز میں سارا سال فٹ بال میچز تو نہیں ہوںگے بعد میں ان سٹیڈیمز کو استعمال میں لانے کی حکمت عملی بھی اپنائی گئی ہے،خلیفہ انٹرنیشنل اسٹیڈیم کو قطر نے کنٹینرز سے تعمیر کیاتھا اور وہاں آخری میچ برازیل اور جنوبی کوریا کے درمیان 5 دسمبر کو ہوا،لیگو بلاکس سے متاثر اس سٹیڈیم کی تیاری کے لیے 974 شپنگ کنٹینرز استعمال کیے گئے ہیں۔لوسیل اسٹیڈیم میں ورلڈکپ کا فائنل ہوگا اور ٹورنامنٹ کے اختتام پر اس اسٹیڈیم کو ایک کمیونٹی مرکز میں تبدیل کردیا جائے گا، جس میں سکول، دکانیں، کیفے، طبی مراکز اور دیگر سہولیات موجود ہوں گی۔البیت اسٹیڈیم کو فائیو اسٹار ہوٹل، شاپنگ مال اور اسپورٹس میڈیسین سینٹر میں تبدیل کردیا جائے گا۔احمد بن علی اسٹیڈیم اور الجنوب اسٹیڈیم مقامی فٹبال کلبوں کے لیے مختص کردیے جائیں گے، احمد بن علی اسٹیڈیم الریان کلب کا مرکز ہوگا جبکہ الورقہ کلب الجنوب اسٹیڈیم میں کھیلے گا۔خلیفہ انٹرنیشنل سٹیڈیم مستقبل میں بھی عالمی فٹ بال مقابلوں کے لیے استعمال کیا جائے گا اور 2026 کے ورلڈکپ کوالیفائنگ مقابلوں کا انعقاد وہاں ہوگا،کچھ اسٹیڈیمز کو جنوری 2024 میں شیڈول ایشیا کپ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ایسا بھی ممکن ہے کہ ایشیا کپ کے لیے اسٹیڈیم 974 کو پھر سے تعمیر کیا جائے۔قطر کو 2030 کے ایشین گیمز کی میزبانی کے لیے بھی وینیوز کی ضرورت ہے۔فیفا ورلڈ کپ 2022 میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے کھلاڑیوں کی کوئی ٹیم تو شامل نہیں لیکن جھنڈوں، فٹ بالز اور اس ایونٹ کے سکیورٹی کے انتظامات میں حصہ لینے والے فوجیوں کے ذریعے قطر میں پاکستان کی موجودگی محسوس کی جا سکتی ہے۔پاکستان کی فٹ بال ٹیم تو اتنی مضبوط نہیں کہ وہ ورلڈ کپ میں شریک ٹیموں سے مقابلہ کرسکے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ سے مکمل طور پر غیر حاضر ہے۔میگا ایونٹ میں استعمال ہونے والے فٹ بالز بھی پاکستان میں تیار کیے گئے ہیں جوکہ میڈ ان پاکستان ہیں، پاکستانی فوجی اہلکار سکیورٹی فراہم کر رہے ہیں اور اب جھنڈے بھی پاکستان کے تیار کردہ ہیں۔پاکستانی کمپنی نے مختلف سائز کے50 ہزار سے زیادہ جھنڈے بھیجے ہیں جو قطر میں فٹ بال کے شائقین استعمال کر رہے ہیں، پاکستان سے اب تک 50 ہزار سے زیادہ جھنڈوں کا کنٹینر قطر بھیجا جا چکا ہے اور ایونٹ کی طلب کو پورا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، ارجنٹائن، برازیل اور پرتگال کے جھنڈوں کی خاص طور پر بہت زیادہ مانگ ہے۔’ الرحلہ’ نامی فٹ بالز جو دنیا بھر کے نامور کھلاڑی استعمال کر رہے ہیں، عالمی سطح پر مشہور سپورٹس ویئر کمپنی ایڈیڈاس نے پاکستان نے تیار کروائی ہیں۔ اس کمپنی نے سیالکوٹ کی ایک کمپنی فارورڈ سپورٹس کو فٹ بال بنانے کا آرڈر دیا تھا۔فیفا کے مطابق ان گیندوں کا ڈیزائن قطر کی ثقافت، فن تعمیر، مشہور کشتیوں اور جھنڈے سے متاثر ہے۔
٭٭٭