فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
69

محترم قارئین! اس آرٹیکل میں حضورۖ کے ساتھ عشق واخلاص کی ارجمندی کا تذکرہ ہے۔ مقصد صرف یہی ہے کہ رمضان المبارک کے اختتامی لمحات کی برکت سے ہمیں بھی ایسا عشق واخلاص عطا فرمائے۔ غزوہ خیبر کے موقعہ پر”اسودراعی” نام کا ایک شخصی تھا یہ ایک حبشی غلام تھا جو یہودیوں کے مویشی چرایا کرتا تھا ہر اسے اس قدر مانوس تھا کہ اپنے وقت کا اکثر حصہ وہیں گزارتا تھا۔ایک دن شام کو آبادی میں پلٹ کر آیا تو دیکھا کہ سارے یہودی جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ تلواروں پر پانی چڑھایا جارہا ہے۔ نیز سے اور تیروں کی نوکیں تیزکی جا رہی ہیں۔ جگہ جگہ سپاہیوں کی قطار کھڑی ہے، یہ منظر دیکھ کر اسے بڑی حیرت ہوئی۔ اس نے متعصبانہ لہجے میں دریافت کیا۔”یہ کس سے جنگ کی تیاری ہو رہی ہے؟ یہود نے جو ایسا دیا کیا تمہیں نہیں معلوم کہ عرب کے نخلستان میں ایک شخص پیدا ہوا ہے۔ جو نبوت کا مدعی ہے اپنے ساتھ دیوانوں کی ایک فوج لے کر وہ فلاں مقام پر ٹھہرا ہوا ہے۔ اسی کے ساتھ ہم مقابلہ کی تیاریاں کررہے ہیں۔ آج کل اس کی فوجیں ہمارے قلعہ کی فصیل تک پہنچنے والی ہیں۔ جو اب سن کر اچانک چروا ہے کے لاشعور میں جستجوئے شوق کا ایک چراغ جل اٹھا اور وہ حقیقت سے قریب ہو کر سوچنے لگا۔ بلاوجہ کوئی دیوانہ نہیں ہوتا۔ وہ دیوانوں کی ایک فوج جو جان دینے کیلئے ساتھ آئی ہے۔ یہ کشش صرف جمال حق کی ہے۔ ہو نہ ہو انہوں نے سچائی کا بے نقاب چہرہ دیکھ لیا ہے۔ یہ سب کچھ سوچتے ہوئے اچانک اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی۔ ”یقیناً ایک سچا رسول ہے” یہ کہتے ہوئے اٹھا اور بکریوں کو ساتھ لیتے ہوئے بے خودی کے عالم میں ایک طرف چل پڑا، آخر کار وہ چکر لگاتے لگاتے مدنی سرکارۖ کے لشکر میں پہنچ گیا۔ حضورۖ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اس نے پہلا سوال کیا”آپ کس بات کی دعوت دیتے ہیں؟” آپ نے اس کے دل کشور کا دروازہ کھولتے ہوئے جواب دیا۔ اس بات کی کہ اللہ ایک ہے ،اس کا کوئی شریک نہیں”مزید فرمایا کہ اس نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے نبیوں اور رسولوں علیھم السلام کا ایک طویل سلسلہ د نیا میں قائم فرمایا ہے جس کی آخری کڑی میں ہوں۔ اس نے پھر سوال کیا۔ اگر میں خدائے ذوالجلال پر ایمان لائوں اور آپ کی نبوت کا اقرار کرلوں تو اس کا صلہ کیا ملے گا؟ فرمایا: عالم آخرت کی دائمی آسائش پھر اس نے جذبہ شوق میں بے قابو ہو کر تیسرا سوال کیا، یارسول! حبشی نژاد ہوں میرے جسم کا رنگ سیاہ ہے۔ میرا چہرہ نہایت بدنما ہے۔ میں ایک صحر انور وچرواہا ہوں۔ میرے بدن سے پیسنے کی بدبو نکلتی ہے۔ اگر میں بھی آپ کے دیوانوں کی فوج میں شامل ہوجائوں اور راہ حق میں قتل کردیا جائوں تو کیامجھے بھی جنت میںداخلے کی اجازت مل سکے گی۔ ارشاد فرمایا: ضرور ملے گی یہ سنتے ہی وہ بے خود ہوگیا اور اسی عالم میں کلمہ شریف پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ اس کے بعد اس نے بکریوں کی بابت دریافت کیا ارشاد فرمایا: دوسرے کی چیز ہمارے لیے حلال نہیں، انہیں قلعہ کی طرف لے جائو اور کنکرمار کر ہنکا دو۔ یہ سب اپنے اپنے مالک کے پاس چلی جائیں گی چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا لیکن ولولہ شہادت کے ہیجان سے اسے ایک لمحہ قرار نہیں تھا۔ فوراً اُلٹے پائوں واپس لوٹ آیا اور مجاہدین اسلام کی صفوں میں شامل ہوگیا۔ واقعات کے روای بیان کرتے ہیں کہ دوسرے دن جب میدان جنگ میں سپاہیوں کی قطار کھڑی ہوئی تو جذبہ شوق کا اضطراب اس کے سیاہ چہرے شے شبنم کے سفید قطر میں کی طرح ٹپک رہا تھا طبل جنگ بچتے ہی اس کے ضبط و شکیب کا بند ٹوٹ گیا اور وہ ایک بے تاب دیوانے کی طرح دشمنوں کی یلغار میں کود پڑا اس کے سیاہ ہاتھوں میں چمکتی ہوئی تلوار کا منظر ایسا دلکش معلوم ہوتا تھا جیسی کالی گھٹائوں میں بجلی گرج رہی ہو۔
نہایت سے دلیری کے ساتھ اس نے دشمن کا مقابلہ کیا، زخموں سے سارا بدن لہولہان ہوگیا تھا۔ لیکن شوق شہادت کے نشے میں وہ دشمن کی طرف بڑھتا ہی گیا۔ یہاں تک کہ چاروں طرف سے اس پر تلواریں ٹوٹ پڑیں۔ اب وہ نیم جان ہو کر زمین پر تڑپ رہا تھا اور وہ گھائل جسم میں اس کی روح مچل رہی تھی کہ اب تو جنت کا فاصلہ بہت قریب رہ گیا تھا۔ لڑائی ختم ہونے کے بعد جب اس کی نعش حضورۖ کے سامنے لائی گئی تو اس کے فیروز بخت انجام پر سرکارۖ کی پلکیں بھیگ گئیں۔فرمایا: اسے جنت کی نہر حیت میں غوطہ دیا گیا۔ اب اس کے چہرے کی چاندنی سے فردوس کے بام ور جگمگا اٹھے ہیں۔ اس کے پسینے کی خوشبو میں حوران بہشتی اپنے آنچل میں بسا رہی ہیں جنت کی دو حسین حوریں اسے اپنے جھرمٹ میں لئے ہوئے باغ خلا کی سیر کرا رہی ہیں۔ سبحان اللہ !کیا عظیم نصیبہ ہے؟ سرکارۖ کے اس بیان پر بہت سے صحابہ کرام علیھم الرضوان کے قلوب رشک سے مچل گئے۔ اس کی فیروز بختی پر سب محو حیرت تھے۔ کہ اس نے اسلام قبول کرنے کے بعد سوائے جہاد فی سبیل اللہ کے اور کوئی عمل خیر نہیں کیا تھا۔ اس کے نامہ عمل میں نہ ایک وقت کی نماز تھی نہ ایک سجدہ۔ سفید وشفاف کفن کی طرح زندگی کا سادہ ورق لئے ہوئے گیا اور بڑے بڑے راہدان شب زندہ دار کو اپنے پیچھے چھوڑ گیا۔ سچ کہا ہے عارفان طریقت نے کہ عشق و اخلاص کی ایک جنون انگیز ادا ہزار برس کی ہے عبادتوں اور حسنات کے بے شمار ذخیروں پر بھاری ہے۔ یہی وہ سکہ رائج الوقت ہے جس میں آج تک کہیں بھی کھوٹ نہیں نکلا اور کسی عالم میں بھی اس کے نرخ کی سطح نیچے نہیں آئی۔ جذب عشق کی ایک ہی جست نے عالم اسفل کے خاک زادوں کو بام عرش تک پہنچا دیا۔ اور محبت ہی کا گھرانہ تھا جس نے قیصرو کبریٰ کے ایوانوں پر اپنی سُو کتوں کے پرچم اڑوائے اور روئے زمین کی بڑی سے بڑی عظمت کو اپنے قدموں کے نیچے روند ڈالا۔ بس نماز کی پابندی، غریبوں کا خیال، انسانی ہمدردی یہ سب چیزیں بہت مصطفیٰۖ کا واضح ثبوت ہیں۔ اللہ پاک سب اہل اسلام کی عیدالفطر کی خوشیاں دوبالا فرمائے، نمازیں روزے اور صدقات قبول فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here