آئی ایم ایف نے پاکستان کے سامنے سٹاف لیول معاہدے سے قبل نئے مطالبات رکھ دئے ہیں۔آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان آٹھ ارب ڈالر قرضوں کی واپسی کے انتظامات پر اسے مطمین کرے۔پاکستان کو چین سے 2.4 ارب ڈالر قرض کا رول اوور یقینی بنانا ہو گا ۔آئی ایم ایف نے پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کم جمع ہونے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔عالمی ادارے کی جانب سے نئے مطالبات قرض کی قسط سے امیدیں باندھے پاکستان کے لئے پریشانی کا باعث ہو سکتے ہیں ۔ ناقص معاشی و سیاسی پالیسیوں نے یہ دن دکھایا کہ پاکستان کے پاس ایک ماہ سے بھی کم مالیت کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں اور وہ آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر کے بیل آوٹ پیکج کا انتظار کر رہا ہے ۔یہ رقم مالیاتی پالیسی ایڈجسٹمنٹ سے متعلق مسائل کی وجہ سے نومبر سے تاخیر کا شکار ہے۔ یہ فنڈز سٹاف لیول ایگریمنٹ (SLA) پر دستخط کرنے کے بعد ہی جاری کیے جاسکتے ہیں۔یہ رقم 2019 میں آئی ایم ایف کے منظور کردہ 6.5 ارب ڈالر کے بیل آوٹ پیکج کا حصہ ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے بیرونی ادائیگیوں کی ذمہ داریوں میں ناکام ہونے سے بچنے کے لیے عالمی ادارے سے قرض کی نئی قسط کا حصول اہم ہے۔ وزارت خزانہ کہہ چکی ہیکہ آئی ایم ایف کے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر اینٹونیٹ مونیسو سیح بہت جلد عملے کی سطح کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے پراعتماد ہیں۔یہ پوچھے جانے پر کہ سری لنکا جیسے ممالک کو درپیش غیر مستحکم قرضوں کی حالت تک پہنچنے سے بچنے کے لیے پاکستان کو کیا کرنے کی ضرورت ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان ابھی اس حالت تک نہیںپہنچا اور وہاں نہ جانا ہی بہتر ہے۔وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق آئی ایم ایف موجودہ پروگرام کے تناظر میں پاکستانی حکام کے ساتھ بہت محنت کر رہا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ملک کے پاس پالیسی فریم ورک موجود ہے تاکہ غیر پائیدار قرضوں کا سلسلہ روکا جا سکے۔آئی ایم ایف سربراہ نے گزشتہ ماہ واشنگٹن میں ایک بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا تھا کہ انہیں امید ہے کہ سب سے خیر سگالی کے ساتھ ہم اپنے موجودہ پروگرام کو کامیابی سے مکمل کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ پاکستان کے دوست ممالک سے مالی یقین دہانیوں کے لیے بھی بات کر رہا ہے تاکہ یہ پروگرام مکمل کر سکے۔پاکستان کو یہ یقین دہانی کرنی ہوگی کہ آئی ایم ایف کی فنڈنگ کی اگلی قسط کو جاری کرنے کے لیے جون میں ختم ہونے والے مالی سال کے لیے اس کے بیلنس آف پیمنٹ خسارے کو پورا کیا گیا ہے۔عالمی ادارے نے دو ماہ پہلے مطالبہ کیا تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان کے خزانے میں زر مبادلہ کی مخصوص مقدار برقرار رہنے کی ضمانت دیں ۔تین ہفتوں کی بات چیت کے بعد دونوں دوست ممالک نے یہ ضمانت فراہم کر دی تھی جس کے بعد حکومت نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اس نے عالمی مالیاتی فنڈ سے اہم بیل آوٹ پیکج حاصل کرنے کے لیے تمام تقاضے پورے کر دیئے ہیں۔ آئی ایم ایف نے حال ہی میں ایک طے شدہ پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے بیل آوٹ پیکج کے طویل عرصے سے رکے ہوئے نویں جائزے کی کامیاب تکمیل کے لیے اہم اضافی فنانسنگ کی ضرورت ہے۔آئی ایم ایف کی جانب سے زیر التوا بیل آوٹ فنڈز کے اجرا کی منظوری سے قبل “اہم اضافی فنانسنگ” کے وعدوں کا حصول ضروری ہے جو ادائیگیوں کے شدید توازن کے بحران کو حل کرنے کے لیے پاکستان کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک سیمینار کے دوران کہا کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ یا اس کے بغیر ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ دوسری جانب پاکستان سٹیٹ بینک کے ذخائر 74 ملین ڈالر سے گر کر 4.38 بلین ڈالر رہ گئے۔یہ فنڈز بمشکل ایک ماہ کی درآمدات کی ادائیگی کے کام آ سکتے ہیں ۔آئی ایم ایف حکام کے مطابق ان کی ٹیم پاکستانی حکام کے ساتھ تفصیلات طے کرنے میںمصروف ہے کیونکہ پاکستان کو واقعی ایک بہت ہی مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔آئی ایم ایف حکام نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیا کی بڑی معیشت جمود کا شکار تھی اور کورونا کے بعد شدید سیلاب سمیت کئی جھٹکوں سے بھی متاثر ہوئی تھی۔آئی ایم ایف کے ترجمان نے بلومبرگ نیوز کو بتایا ہے کہ پاکستان نے کراس سبسڈی پروگرام پر عمل درآمد نہ کرنے کا وعدہکیا ہے۔ حکومت پاکستان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ عوام کے لئے کسی طرح کی نئی ٹیکس چھوٹ متعارف نہیں کرائے گی اور ڈالر کے مقابلے میںروپے کے لیے مارکیٹ پر مبنی شرح مبادلہ کی “مستقل اجازت” دے گی۔رواں برس مارچ میں، وزیر اعظم شہباز شریف نے صاحب ثروت صارفین سے ایندھن کے لیے زیادہ قیمت وصول کرنے کی تجویز پیش کی تھی ۔ ان کا خیال ہے کہ اس رقم سے مہنگائی سے شدید متاثر غریبوں کے لیے قیمتوں میں سبسڈی دینے کے لیے مدد لی جا سکتی ہے۔ مجوزہ سکیم کو آئی ایم ایف کے بیل آوٹ پیکج پر عمل درآمد میں تاخیر کی ایک وجہ کے طور پر دیکھا گیا۔عالمی ادارے کے نئے مطالبات پر عمل کرنے سے مہنگائی کی تازہ لہر کا خدشہ ہے ۔اب تک حکومت عام آدمی کی استطاعت اور عالمی ادارے کے مطالبات کے درمیان توازن لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ، عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ،ان حالات میں آئی ایم ایف کے نئے مطالبات جیل آوٹ پیکج کی بحالی میں مدد گار تو ہو سکتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد محال ہو سکتا ہے۔
٭٭٭