آج کے دور کے عظیم دانشور، ادیب اور سخت زباں شاعر محترم پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری کا میری کتاب ”روشنی کا بدن” پر خوبصورت تبصرہ اور میرے لئے اردو ادب کا شہاب ثاقب کا خطاب اور موجد سائنسی غزل کا خطاب عطاء فرمایا جو میرے لئے ایک سند اور ایوارڈ کی حیثیت رکھتا ہے میں جناب ڈاکٹر کا بے حد مشکور ہوں کہ انہوں نے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر تبصرہ فرمایا اور خوبصورت خطابات سے نوازا میں لمحہ لمحہ ان کیلئے دعا گو ہوں!!!۔
شاعری بنیادی طورپر دل کا معاملہ ہے، دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ دلمرکز وجدان ہے۔ وجدان دولت الہام ہے۔ رانا افتخار احمد ثاقب صاحب ایک صاحب دل انسان ہیں اور صاحب دل صاحب درد ہوتا ہے۔ میرا ایک شعر ہے!
سب کچھ بجا ہے عالم تخلیق میں مگر
سب کچھ بنا دیا ہے اگر دل بنا دیا
ثاقب صاحب کا پہلا شعری مجموعہ بعنوان ”رقصِ دل” شائع ہوا تھا۔ یہ رقصِ دل دراصل رومی کا رقصِ درویش ہے جو ایک جہان معنی ہے۔ آپ کی وسری شاعری کی کتاب ”ستاروں سے پرے’ کے عنوان سے چھپی۔ بقول علامہ اقبال!
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتھان اور بھی ہیں
عشق کا امتحان بڑا جان لیوا اور روح فرسا ہوتا ہے، چاہے وہ عشق مجازی ہو یا عشق حقیقی۔ دل ویران ہو جاتا ہے۔ مرزا غالب نے اس ویرانی کا رونا یوں رویا۔ کہتے ہیں!
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
لیکن ثاقب صاحب نے غمِ جاناں کو غمِ دوراں بنا دیا۔ کہتے ہیں!
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے دیکھو
ابھی قحطِ بہاراں ہے معاذ اللہ
یہ قحط بہاراں وہ خزاں ہے جو نہ صرف دل ویراں پر چھائی ہے بلکہ گلشن زندگی کو بھی اُجاڑ دیتی ہے۔ بقول جگر مراد آبادی!
چمن والوں سے مجھ صحرا نشیں کی بُودو باش
اچھی بہار آکر چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی
ثاقب صاحب کی شاعری میں شدت کرب اور حدت درد ہے۔ زباں بیان میں سلامت و بلاغت ہے۔ شیرینی اور روانی ہے جو بُوئے جوانی اور طبع کی جوانی ہے۔
شاعری رمزِ شعور اور یاد سرور ہے۔ ثاقب صاحب کی شاعری روایت اور جدت کا حسین امتزاج ہے۔ ان کی نگاہ تیز میں معاشرے پر ہے۔ کہتے ہیں!
چشم بینا دیکھتی ہے دُور تک
رُک گیا جیسے بیاباں آنکھ میں
شاعر کی آنکھ چشمِ نرگس نہیں ہوتی جو نہ بصارت رکھتی ہے اورنہ بصیرت۔ چشم بینا بصارت و بصیرت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ ثاقب صاحب دیدہ بینا رکھتے ہیں اور ان کی شاعری خواب و خیال کی نہیں بلکہ زندگی کے حقائق کی شاعری ہے۔ بقول اقبال!
جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر
تیراز جاج ہو نہ سکے گا حریفِ سنگ
ان کی شاعری کی تیسری کتاب ”روشنی کا بدن” زیر طبع ہے۔ ”اے روشن طبع تو برمن بلا شدی”والا معاملہ ہے۔ کہتے ہیں!
دل کو روشن رکھتا ہے ثاقب مرے
میری جاں کارُوئے نازاں آنکھ میں
ان کے دل کو روشن روشنی کا بدن ہی رکھ سکتا ہے۔ روشنی کا بدن ایک استعارہ ہے۔ جب یہ روشن ء طبع آئے گی تو جہالت، ضلالت، نکبت، نخوت، ذلالت، کدورت، عداوت اور ہلاکت پر مبنی انسانی عماشہ محبت، شرافت، عزت اور عظمت کا رُوپ دھار لے گا اور یہی ثاقب صاحب کیش اعری کا مُدعا و مقصد ہے۔
٭٭٭