ناکھیڈاں گے، ناکھیڈن دیاں گے!! !

0
63

تحریک انصاف پھر اسی موڑ پر جاکھڑی ہوئی ہے جہاں پر دو ڈھائی سال پہلے کھڑی تھی رویے میں کوئی لچک نہیں کہنے کو تو بیرسٹر گوہر خان چیئرمین ہیں لیکن دیکھا جائے تو وہ بیچارے ”ہزماسٹرس وائس” ہی ہیں۔ بانی تحریک کا جھگڑا ملک اور اس کی عوام سے ہے۔ سبھی ایسے نہیں ہوا کہ اتنی کثیر تعداد جیتنے والی جماعت نے دھاندلی کا الزام لگایا ہو۔ پاکستان کیا دنیا کی تاریخ میں کبھی نہ سنا نہ دیکھا کہ جس جماعت نے باوجود پابندیوں اور سختیوں کے اتنی سیٹیں جیتیں پھر بھی احتجاج اور دھرنوں کی سیاست کرنے پر بضد ہے۔ اور تیسری جماعت کی دعوت الحاق کو ٹھکرا کر اپوزیشن میں بیٹھنا چاہ رہی ہے۔ کیونکہ لوگوں کے مسائل کا حل نہ پچھلے دور حکومت میں کر پائے نہ ہی کوئی حل اپنے منشور میں دیا ہوا ہے۔ اور نہ ہی ارادہ ہے۔ انار کی پھیلانے کیلئے اپوزیشن کی ڈیسکون جیسی کوئی پناہ گاہ نہیں اور تو اور انکے چمچھے چماٹ بھی اب کہتے نظر آئے اور سنائی دے رہے ہیں کہ90فیصد سیٹیں ہماری تھیں جو بے ایمانی کرکے اور مسلم لیگ(ن) کو دیدیں گئیں ہیں۔ پاکستان میں2024میں سارے ملک کے کل ووٹروں میں سے فقطہ47%فیصد ووٹروں نے ووٹنگ میں حصہ لیا ہے۔ جس میں20%فیصد خواتین ووٹرز تھیں اور27%فیصد مرد حضرات نے حصہ لیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ53%فیصد ووٹر باہر ہی نہیں نکلے۔ کیونکہ لوگوں کی زندگی دو بھر ہوگئی ہے دھرنے ہڑتال اور جلوسوں نے بری طرح سے زندگی کو مفلوج کردیا ہے غریب آدمی کو روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں کب تک یہ بے سہارہ لوگ خان کی ضد اور انا کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔ صوبہ سرحد میں14سال کی حکومت میں کیا کارکردگی تھی کہ جتنا انکی حکومت سے پہلے تیس سال میں قرضہ لیا گیا تھا وہ انہوں نے پچھلے تین سال میں دھرنے کی سیاست کرکے پختونخواہ صوبے پر قرضہ مزید چڑواہ دیا ہے۔ کیا ترقی کی ہے13/14سالہ دور حکومت میں ماسواء بادشاہ کو راضی رکھنے میں۔ یہ ایک طاقت کا مخور بن کر پورے ملک پر اپنا سکہ رائج کرانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ سندھ کے لوگوں نے تحریک انصاف کو مکمل طور پر رد کردیا۔ بلوچستان میں بھی انکی کوئی خاص حمایت نہیں دے کہ پنجاب اور پختونخواہ میں انہیں حمایت حاصل ہے اور 9مئی کے بعد پنجاب کے عسکری علائقہ جات میں شہدا کے مجسمہ جلا کر خان کی حمایت میں واضع کمی آگئی ہے۔ یہاں پختونوں میں اپنے کو پختون کہلوا کر انہوں اپنے لٹے لوگوں کو قوم پرستی کے سحر کو پھیلایا ہوا ہے۔ ولی خان کے بعد انہیں عمران خان ہی پختونخون کا ہیرو محسوس ہوتا ہے۔ نہ پشتو زبان سے واقف ہے اسے تو اپنے باپ دادا کی زبان میانوالی والی سرائیکی بھی نہیں آتی۔ پھر بھی پختون ہے دیکھا جائے تو یہ جماعت پختون پنجابی اتحاد تو کہلایا جاسکتا ہے جوکہ سندھ بلوچستان کے لوگوں کے خلاف بنایا گیا ہے۔ سندھ کے لوگوں نے ایک بار پھر پیپلزپارٹی کو حکومت بنانے کا حقدار بنا دیا۔ مخالفین کے ایک بڑی سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈہ کے باوجود لوگوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے اور نواسی کو عزت دی ہے اور بھٹو شہید اور گڑھی خدا بخش کو اپنے ووٹوں کا نظرانہ دیدیا لیکن اب یہ ان بچوں کا بھی فرض ہے کہ اس مرتبہ سندھ کے لوگوں کو مایوس نہ کریں اور بدعنوان افسروں کے حوالے سندھی اور اس دھرتی کی غریب عوام کو ان بھڑیوں کے حوالے نہ کریں۔ کراچی سمیت حیدر آباد، دادو، لاڑکانہ، سکھر، خیرپور، مانگھڑ، نواب شاہ، ٹھٹھہ، اور تھرپارکر بدین سجاول بلکہ دیہاتوں میں بجلی کے چھوٹے چھوٹے سولر انرجی پیدا کرنے والے یونٹوں کو گائوں میں سرکاری خرچہ پر لگوا کر عام بجلی سے آدھی قیمت میں بجلی کی فراہمی کروائیں بجلی ہوگی تو پانی بھی ملیگا۔ پہلے بھٹو خاندان کے شہداء کا ہر سندھی مقروض تھا اب سندھ کے لوگوں نے اتنی مرتبہ بھٹو کی پارٹی کو ووٹ دیکر بلاول اور آصفہ کو مقروض کردیا ہے اب اگر انہیں اپنی والدہ اور نانا کی روح کو سرخرو کرنا ہے تو غریب سندھی کی زندگیوں کو آسان کرنا ہوگا۔ پانی بجلی اور خوراک مانگتی ہے یہ مخلوق انہیں ننگے پائوں خالی پیٹ ننگ دھڑنگ لوگوں نے آپکو دنیا میں مقبول کیا ہے۔ جتنی عزت دنیا بھر میں بھٹو خاندان کو نصیب ہوئی ہے شاید ہی کسی اور خاندان یا سیاسی خاندان کو نصیب ہوئی ہے۔ اب بھٹو خاندان کی نئی نسل پر فرض ہے کہ وہ پاکستان بھر کے لوگوں کے اس احسان کا بدلہ چکائیں اور انکو خود سر حکمرانوں اور انا کے مارے ذہنی اور روحانی مریضوں کے تسلسل اور تباہی سے نجات دلائیں اسکے لئے اگر بلاول اور آصفہ کو فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کی مدد بھی نہیں پڑے تو لیں انکی رگوں میں بھی انکے نانا اور ماں کا خون دوڑ رہا ہے۔ وہ بھی پاکستان اور سندھ کے مخلص ہیں مل جل کے یہ خاندان اس ملک کی تقدیر سنوار سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here