1939 اور 1945 کے درمیان دوسری جنگ عظیم کے دوران یورپ میں نازیوں کے ہاتھوں 60 لاکھ یہودیوں کے مارے جانے کے بعد عالمی رہنمائوں نے اس معاہدے کو قبول کرتے ہوئے آئندہ ایسے سانحے سے بچنے کی کوشش کی ۔ غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کا معاملہ اگرچہ ستاون مسلم ریاستوں کے لئے پہلی ترجیح ہونا چاہئے تھا لیکن یہ مجبور اور ناتواں ممالک مدد کے لئے کبھی امریکہ تو کبھی چین کی طرف دیکھتے رہے۔جنوبی افریقہ کی حکمران پارٹی افریقن نیشنل کانگریس کی بھی فلسطینی تحریک کے ساتھ یکجہتی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ عالمی عدالتِ انصاف نے اسرائیل پر غزہ میں نسل کشی کے الزامات پر مبنی جنوبی افریقہ کی درخواست کو اپنے دائرہ کار کے مطابق اور قابل سماعت قرار دیا ہے ۔آئی سی جے نے جنوبی افریقہ کا کیس نہ سننے کی اسرائیلی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے پاس جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف غزہ میں مبینہ نسل کشی سے متعلق کیس سننے کا اختیار ہے۔عدالت کی جانب سے اسرائیل کو غزہ میں ہلاکتوں اور نقصان کم کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاہم غزہ میں فوجی آپریشن بند کرنے یا جنگ بندی کا حکم نہیں دیا گیا۔عالمی عدالت انصاف کی جانب سے سنائے گئے فیصلے میں اسرائیل کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے اختیار میں موجود تمام اقدامات اٹھائے جو غزہ میں نسل کشی کے واقعات سے بچا سکیں اور نسل کشی پر اکسانے والوں کو سزا دی جائے۔عالمی عدالت انصاف کا مزید کہنا ہے کہ اسرائیل اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی فوجیں غزہ میں نسل کشی نہ کریں اور مبینہ نسل کشی کے شواہد کو محفوظ رکھا جائے۔خیال رہے کہ جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف میں ایک قانونی درخواست جمع کروائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کے اقدامات فلسطینیوں کی نسل کشی کے مترادف ہیں ۔ اقوام متحدہ کے 1948 میں جاری کردہ کنونشن کے مطابق نسل کشی کا مطلب ہے کسی قومی، نسلی، یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے کارروائیاں کرنا۔ اس عمل میں کئی امور شامل ہیں جیسا کہ کسیگروہ کے ارکان کو قتل کرنا، گروہ کے اراکین کو شدید جسمانی یا نفسیاتی نقصان پہنچانا۔جان بوجھ کر گروہ کو جسمانی طور پر، مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنا ۔گروہ کے اندر بچوں کی پیدائش کو روکنے کے لیے اقدامات نافذ کرنا۔ بچوں کو گروہ سے دوسرے گروہوں میں زبردستی منتقل کرنا۔ماضی میں یہ تما طریقے کسی قوم یا کروہ کی نسل ختم کرنے کے لئے اپنائے جاتے رہے ہیں اسی لئے اقوام متحدہ نے انہیں اپنے کنونشن کا حصہ بنا لیا۔ عالمی عدالت انصاف اقوام متحدہ کے بنیادی اداروں میں سے ایک ہے ۔ اس کا مقصد ریاستوں کے درمیان تنازعات کا فیصلہ کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک خود بخود عالمی عدالت انصاف کے رکن ہیں۔کوئی بھی ملک عالمی عدالت انصاف کے سامنے مقدمہ لے جا سکتا ہے ۔یہ عدالت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کے ذریعے نو سال کی مدت کے لیے منتخب کیے گئے 15 ججوں پر مشتمل ہوتی ہے۔دیگر بین الاقوامی تنازعات کے ساتھ ساتھ عدالت کے دائرہ اختیار میں 1948 کے نسل کشی کنونشن سے متعلق تنازعات پر غور کرنا بھی شامل ہے۔جنوبی افریقہ فلسطینی تحریک میں نسل پرستی کے خلاف اپنی جدوجہد کے ساتھ مماثلت دیکھتا ہے۔ جنوبی افریقہ میں سفید فام اقلیتی حکومت نے ملک کی سیاہ فام اکثریت کے خلاف نسلی علیحدگی اور امتیازی سلوک کی پالیسی رائج کی ہوئی تھی جو 1994 میں ہونے والے پہلے جمہوری انتخابات تک نافذ رہی۔ گذشتہ ماہ صدر سیرل رامافوسا نے جنوبی افریقہ کے یہودی رہنماوں کو بتایا تھا کہ ان کی حکومت فلسطینی عوامکے ساتھ کھڑی ہے جنھوں نے سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے نسل پرستی کے وحشیانہ قبضے کو برداشت کیا ہے۔ پاکستان نے جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر درخواست کی حمایت اور عالمی عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان جنوبی افریقہ کی جانب سے عالمی عدالت انصاف کے سامنے درخواست کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان کو بھی یہی تحفظات ہیں جو درخواست میں بیان کیے گئے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ ان بڑی ریاستوں کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کے لئے خبردار کرتا ہے۔ آئی سی جے کے صرف فیصلے سے غزہ کے باشندے محفوظ ہو سکتے ہیں اور نہ تباہی کو ختم کیا جا سکتا ہے ۔ غزہ میں نسل کشی کی خطرناک صورتیں اور اسرائیل کی جانب سے عالمی قوانین سے واضح انحراف کو روکنے کے لیے موثر، متحد دباو کی فوری ضرورت ہے۔ اگرچہ عالمی عدالت نے جنگ بندی کا حکم نہیں دیا تاہم طاقتور ریاستوں کو قانون کی عملداری یقینی بنانے کے لئے ازخود جنگ بندی اور اسرائیل کے خلاف نسل کشی کی کارروائی میں معاونت کے لئے کردار ادا کرنا ہو گا۔ ترجمان کے مطابق اس وقت فلسطینیوں کے خلاف جاری جارحیت اور کارروائیاں جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے اور نسل کشی کے مترادف ہے۔ترجمان دفتر خارجہ نے فوری طور پر فلسطینی عوام کے لیے انسانی امداد کی بحالی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ و برطانیہ وہ ریاستیں ہیں جو بین الاقوامی نظام کو چلانے کا دعوی کرتی ہیں۔کئی بڑے اور طاقتور ممالک ان کے اتحادی ہیں۔دنیا میں امن برقرار رکھنا ان عالمی طاقتوں کی ترجیح رہی ہے لیکن فلسطین کے معاملے میں ان کی جانبداری اور اسرائیل کی غیر مشروط حمایت نے فلسطینیوں کی نسل ختم کرنے جیسے خطرات پیدا کر دیئے ہیں۔
٭٭٭