ٹائم میگزین کا تازہ شمارہ ہمارے سامنے ہے اور اس کے ٹائٹل پر ڈیموکریٹک پارٹی کے چند صدارتی امیدواروں کے چہروں کی تصاویر کے ساتھ سپیکر نینسی پلوسی اور افریقن کانگریس خاتون جو حجابی مسلم ہیں اور صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ الہان عمر کا چہرہ بھی ہے۔ ٹائم میگزین کا یہ ٹائٹل بے ترتیبی اور کسی پرائمری سکول کے بچے کا فن پارہ لگتا ہے جو کسی بھی طور پر ٹائم میگزین کو زیب نہیں دیتا۔ دن بدن اس میگزین کا معیار اور مواد گرتا جارہا ہے۔ جب سے میگزین کے نئے چیف ایڈیٹر Edward Felsenthal نے چارج لیا ہے ان سے پہلے ایک خاتون تھیں جنہوں نے ٹائم میگزین کو ٹیبلائڈ بنانے کی کوشش کی تھی اور بین الاقوامی سطح پر میگزین کا معیار گر گیا تھا۔ ساتھ ہی میگزین کی پالیسی پر نظر دوڑائیں تو لگتا ہے میگزین وہ خبریں اور واقعات بتانے سے گریز کرتا ہے جس کا عوام انتظار کرتے ہیں یا ضروری ہوتا ہے کہ لوگوں کو جانکاری دی جائے۔ ٹائم میگزین اپنے تاریخی ٹائٹل کی وجہ سے بھی مشہور تھا اور اس کی حیثیت پچھلے 84 سال سے معتبر خبروں کیلئے اور مضامین کیلئے مشہور ہے جس کا انتظار ہر ہفتہ تعلیم یافتہ اور دانشور لوگوں کو رہا ہے۔21 جولائی کو امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں پاکستان سے آئے نئے وزیراعظم عمران خان نے جو صدر ٹرمپ کی دعوت پر آئے تھے یہاں کے بڑے سٹیڈیم میں 30 ہزار سے زائد پاکستانیوں سے 51 منٹ خطاب کیا۔ ہر چند کہ اس خطاب میں امریکن یا دنیا کے دوسرے ملکوں کی جانکاری کی بجائے پاکستانیوں بالخصوص نوجوانوں کیلئے ملک کی پستی کی وجوہات بتائی گئی تھیں‘ ان کو آگاہی دی گئی تھی کہ ملک کی دولت پاکستان سے باہر لے جانے والے کون ہیں اور ان کا حساب ہورہا ہے اور ہوگا۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ امریکی میڈیا وہاں نہیں تھا اور اگر تھا تو یہاں کے بڑے چینلز‘ ABC‘ CBS اور NBC نے ایک منٹ کی بھی خبر نہیں دی اور نہ ہی CNN نے مناسب جانا کہ اس پر کوئی بیٹھک کی جائے۔ یہ شرمناک صحافت ہے۔ یہاں کا صحافی یا پروڈیوسر جو خبروں اور ٹاک شو کا انچارج ہے وہ پابند ہے‘ ادارے کی پالیسیوں کا۔ وہ ناقابل اور ناکارہ ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے اسے خبروں کا حصہ بنایا جائے۔ یہی خبر کیا کم تھی کہ پہلی بار سٹیڈیم کا ایرینا مکمل طور پر بھرا ہوا ہے اور ہزاروں لوگ جگہ نہ ہونے کی وجہ سے 103 ڈگری فارن ہیٹ کی گرمی میں باہر کھڑے ہیں۔ لگتا تھا سارے امریکی صحافی شہر چھوڑ کر ساحل سمندر پر مزے لوٹ رہے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہیں۔ اس میڈیا کی نالائقی کی یہ انتہا تھی جس کیلئے ہم ٹائم میگزین اور میڈیا کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ صحافت کو اپنے تعصب کی بھینٹ نہ چڑھاﺅ۔ اسے سنجیدگی سے لو۔ بین الاقوامی سطح پر صحافت کا معیار رکھو۔ لوکل نیوز پیپر اور لوکل چینل بنانے سے گریز کرو۔ ہم اپنے کالم کو ٹائم میگزین کے علاوہ ہر چینل کو ای میل کریں گے اور انہیں غفلت سے جگائیں گے کہ ایسا کیوں ہے۔ عمران خان جو بلاشبہ پچھلے 22 سال سے جدوجہد کررہا ہے اسے اس موقع پر بھی ٹائٹل کی زینت نہیں بنایا گیا اور ٹائٹل کو بے معنی کرنا مناسب سمجھا۔ یہ ایک شرمناک فعل ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اندر کے صفحات پر بھی عمران خان کی اس تاریخی تقریر اور صدر ٹرمپ سے وائٹ ہاﺅس میں ملاقات اور افغانستان کے تعلق کے علاوہ کشمیر کے موضوع پر گفتگو سے امریکی عوام کو کیوں دور رکھا گیا۔ اسے ہم غفلت نہیں بلکہ صحافت کی دنیا سے لاتعلقی کا قدم کہیں گے۔ کیا بار بار نیتن یاہو کو ہیرو بنا کر پیش کرنا ضروری ہے جس کیلئے ساری دنیا کی رائے خراب ہے۔ بہت ممکن ہے ٹائم میگزین کے ایڈیٹر ایڈورڈ فیل سینتھل چھٹیوں پر ہوں‘ جو کچھ ہم نے لکھا ہے اپنی اور یہاں کے میڈیا (پیپر اور الیکٹرانک) صحافتی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کیلئے کیا ہے۔
ویسے تو سوشل میڈیا اور ہالی وڈ نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اس کے اثرات تیزی سے معاشرے میں مدہوش اور غافل کرنے والے ہیں۔ ہالی وڈ نے امریکہ اور امریکہ سے باہر ہونے والے تاریخی اور سوشل واقعات کے حوالے سے کہانیاں فلمانا بند کردی ہیں۔ اس لئے کہ یہ منافع بخش نہیں۔ پچھلے دس سالوں میں جب سے LION KING کارٹون فلم کی نمائش ہوئی تھی‘ نے Star War جیسی Sci-Fi فلموں کو بھی دبا دیا ہے اور اب کامک کا دور ہے اور بچوں اور نوجوانوں کو‘ کامک پر بنی فرضی فلمیں دکھا کر معاشرے سے بے خبر کردیا ہے اگرچہ الف لیلیٰ دنیا کی ٹاپ کی کہانیوں (کتاب) کو خود نیویارک ٹائمز اولیت کا درجہ دے چکا ہے وہیں سے‘ ایک کہانی والٹ ڈزنی پکچرز نے ”الہ دین“ کی کہانی کو کمپیوٹر کی مدد اور دو نئے اداکاروں کو لے کر باکس آفس پر ریکارڈ توڑا ہے۔ دیکھیں ہالی وڈ امریکہ اور دنیا بھر کے فلم بینوں کو کہاں لے جاتا ہے لیکن یہ کہتے چلیں کہ تخلیق کم اور دھوم دھڑکا والی فلمیں بن رہی ہیں۔ ادھر پاکستان عرصہ تک فلم بندی میں ناکامیوں کے بعد ہندوستانی بالی وڈ سے آگے نکل جانے کیلئے ”منی بدنام ہوئی“ کا بگھار لگا کر عید کے موقع پر ”سپر سٹار“ ریلیز کررہا ہے جس میں ماہرہ خان نے اپنی ماڈلنگ اور بے ہودہ لباس فحش ڈائیلاگ سے نوجوانوں کو نیا راستہ دکھایا ہے‘ بنانے والے ہم ٹی وی کی مومنہ درید ہیں جو ماڈلنگ کو فروغ دے رہی ہیں۔ فیصلہ میڈیا کرے گا لیکن وہ خود اپنے ہم چینل کے ذریعے دن رات فلم کے جلوے اور منی بدنام ہوئی جیسے ہوش اڑانے والے ڈانس سے بتانا یہ چاہتی ہیں کہ ہم کسی سے کم نہیں لہٰذا کیوں نہ کیش کرائیں۔ اس فلم کے بعد ہمیں یقین ہے کہ لوگ وینا ملک کو بھول جائیں گے اور ماہرہ خان کو ہی یاد کریں گے۔ فلم بھی میڈیا کی زد میں آتی ہے جس کے ذریعے عوام کو پیغام دیا جاتا ہے یا جانکاری ہوتی ہے۔ ہمیں لگتا ہے پاکستان میں کوئی سنسر بورڈ نہیں اور میڈیا کیلئے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔
پچھلے ہفتے نواز شریف کے سابقہ مشیر سینئر صحافی اور تدریس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے عرفان صدیقی کو رات کے بارہ بجے پولیس ہتھکڑیاں پہنا کر لے گئی اور تھانے میں بند کردیا۔ کس کے حکم پر اور کس بات پر کہ انہوں نے کرایہ دار کا کاغذی طور پر آفس میں اندراج نہیں کرایا تھا۔ ساتھ ہی کرایہ دار کو بھی بند کردیا ہے اور سیاسی مخالفین نے عمران خان کو صبح سے شام تک لتاڑا جبکہ عمران خان کو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں علم نہیں ہوگا۔ انسپکٹر جنرل پولیس کو بھی شاید معلوم نہ ہو۔ ممکن ہے مخالفین نے تھانے والوں سے ایسا کروایا ہو کہ عمران حکومت کو نشانہ بنایا جائے۔ اب انکوائری ہورہی ہے لیکن حکومت کے ماتھے پر نااہل ماتحتوں کی وجہ سے ایک داغ اور اس سے پہلے بھی کئی اساتذہ کو ہتھکڑیاں پہنا کر جیل میں بند کردیا گیا تھا۔ عرفان صدیقی کا یہ جرم بڑا نہ تھا‘ غفلت تھی اور ایک نوٹس بھجوا کر نہیں تھانے بلوا کر پوچھا جاسکتا تھا۔ ہم اسے شرمناک حرکت کہیں گے جو پی ٹی آئی کے دور میں ہوئی ہے۔
دوسرے محاذ پر مولانا فضل الرحمن ناموس رسالت کے نام پر عوام کو جمع کرتے رہے ہیں اور تقریر میں سارا غصہ عمران خان پر اتارتے ہیں۔ حافظ حمداللہ ان کے ساتھ ہیں جو عمران خان کو نالائق کہتے ہیں اور آسیہ کے نام سے عوام کو بہکاتے ہیں۔ ویسے تو مریم اورنگزیب بھی عمران خان کو نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ نون لیگ کی وفاداری میں اب ان سے کون پوچھے کہ انہوں نے کیا تیر مارے ہیں‘ سوائے جوتے چاٹنے کے اور ضمیر کو مارنے کے۔
بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے نیوجرسی کے دوست اشرف سہیل کی کتاب کے عنوان کے حوالے سے کہ میڈیا بے لگام ہے اور عمران خان کے مخالفین اپنی چوریاں چھپانے کیلئے آزاد بلکہ مادر پدر آزاد ہوکر میڈیا پر صبح شام بکواس کررہے ہیں اور یہاں کا میڈیا بھی اپنے صحافتی پیشے سے منحرف ہوکر امریکن کو بے شعور اور اپنی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر واقعات کو نظرانداز کرکے بے معنی خبریں اور موضوع کو صحافت میں ٹھونس رہا ہے۔
٭٭٭