وزیراعظم عمران خان کا فاکس نیوز کے صحافی کو دیئے گئے انٹرویو میں کہنا کہ اگر بھارت ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار ہو جائے تو ہم بھی ایٹمی پروگرام رول بیک کرسکتے ہیں۔ بھارت کا پروگرام ہندو بم نہیں۔ پاکستان کا پروگرام اسلامی بم ہے جس کا پروپیگنڈہ پچھلے بیس سال سے جاری ہے۔ ہمیں بحیثیت مسلم فرقہ واریت کی بنیاد پر کئی بار تقسیم کرنے کی کوشش کی گئیں ہیں۔ آج اگر ہم قائم ہیں تو ایٹمی صلاحیت ہونے کی وجہ سے ہیں۔ عراق اور لیبیا کی تباہی ہمارے سامنے ہے جس طرح ان دونوں ملکوں کو تباہ کیا گیا، قوم کو تقسیم کیا گیا۔ وہ سب آپ کے سامنے ہے لہٰذا اس صلاحیت پر سمجھوتہ کرنااور کمزوری دکھانا اپنی موت کو آواز دینے کے مترادف ہے۔ آج اگر ہم زندہ ہیں تو اپنی ایٹمی صلاحیت کی وجہ سے زندہ ہیں اگر مکارہندو ریاست ایٹمی ہتھیاروں کی تخفیف پر رضامندی کا اظہار کر بھی دے تب بھی پاکستان کو اپنے ایٹمی صلاحیت اور اثاثوں سے دستبردار نہیں ہونا چاہئے۔
امریکہ میں عمران خان نے ہمارے ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق انتہائی خطرناک بیان دیا جس کو مسترد کیا جانا انتہائی ضروری ہے کیونکہ اگر اس پر خاموشی اختیار کی گئی تو یہ غدارانہ موقف جڑیں پکڑ سکتا ہے۔ 24 جولائی 2019ءکو فوکس نیوز کی اینکر پرسن برٹ بائر نے عمران خان سے پوچھا کہ ”اگر بھارت یہ کہہ دے کہ وہ اپنی ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار ہوجائے گا تو کیا پاکستان بھی ایسا کرے گا؟“۔ عمران خان نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے یہ غیر ذمہ دارانہ جواب دیا کہ، ”جی ہاں کیونکہ ایٹمی جنگ کوئی آپشن نہیں ہے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ خود کو تباہ کرنا ہے“۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت سے متعلق امریکی خدشات پر عمران خان نے دوبارہ امریکا کو یہ کہہ کر یقین دہانی کرائی کہ ”ہم اپنے ایٹمی پروگرام کے حفاظتی اقدامات کے حوالے سے امریکا کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ کرتے رہتے ہیں“۔ بجائے اس کے کہ حکومت دشمن کو یہ پیغام دے کہ ہمارا ایٹمی پروگرام کس قدر مضبوط اور طاقتور ہے، اس حکومت نے یہ بے وقوفانہ اعلان کردیا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار ختم کرنے کےلئے تیار ہے جبکہ دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلز کو مزید جدید ترین بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اے پاکستان کے مسلمانوں اور خصوصاً سٹریٹیجک پروگرام سے منسلک افسران! ہمیں اس حکومت کا سختی سے احتساب کرنا چاہیے تا کہ وہ اپنے خطرناک مو¿قف سے دستبردار ہو جائے۔ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار رکھنے کے باوجود بھارت کولڈ سٹارٹ اور اس جیسے دیگر جارحانہ جنگی منصوبے بنانے سے باز نہیں آیا۔ بھارت ایٹمی ہتھیاروں کی چھتری تلے پاکستان کے خلاف روایتی جنگ لڑنے کی تفصیلی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ جہاں تک ٹرمپ کی اپنے مضبوط اتحادی مودی کے ساتھ ثالثی کے حوالے سے حکومت کی امید کا تعلق ہے تو پلوامہ کے واقع کے بعد ہونے والے بھارتی فضائی حملوں کے دوران امریکہ کی بھارت نواز پالیسی سے یہ واضح ہو گیا تھا کہ امریکا بھارت کی جانب کس قدر جھک چکا ہے۔ بھارت اپنے اسلحے کے ذخائر میں زبردست اضافہ امریکا کی مکمل آشیر باد سے کررہا ہے کیونکہ اس طرح بھارت خطے میں چین کی مخالفت اور مسلمانوں کو کچلنے میں امریکا کا معاون ومددگار بن سکے گا۔ اس بات پر بھی خطرے کی گھنٹیاں بجنی چاہئے کہ پاکستان نے پچھلے دو سال سے میزائل تجربات معطل کر رکھے ہیں جس میں ایک سال باجوہ‘ عمران حکومت اور ایک سال پچھلی حکومت کا بھی شامل ہے جس حکومت کو عمران خان ”مودی کا یار“ کہا کرتے تھے جہاں تک امریکا کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے کی بات ہے تو امریکا کی افغانستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکا کی فوج ہمارے ایٹمی اثاثوں کو نشانہ بنانے کےلئے ہمارے قریب ہی موجود رہے جبکہ یہ حکومت افغانستان میں امریکا کی موجودگی کو برقرار رکھنے کےلئے افغان امن مذاکرات میں اس کی مدد کر رہی ہے۔ ہمارے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکا کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ یقیناً اسلام، پاکستان اور خطے کے مسلمانوں کے ساتھ غداری ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: ”اور جہاں تک ہوسکے (فوج کی جمعیت کے) زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے مقابلے کےلئے مستعد رہو کہ اس سے اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور اللہ جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے گی“۔ (الانفال 8:60)
ہمارا عظیم دین ہم پر لازم کرتا ہے کہ ہم جدید ترین فوجی صلاحیت حاصل کریں جس میں ایٹمی ہتھیار، سٹیلتھ ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور خلائی ٹیکنالوجی کی صلاحیت بھی شامل ہے تا کہ ہمارے دشمن ہم سے خوفزدہ رہیں۔ ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کا مقصد صرف ہندو ریاست ہی کو خوفزدہ رکھنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس پروگرام کا مقصد امریکا اور یہودی وجود سمیت تمام دشمنوں کو خوفزدہ کرناہونا چاہیے۔ ہماری فوجی برتری کا مقصد صرف ایک دشمن کا مقابلہ کرنانہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا مقصد دنیا میں اسلام کی بالادستی کو یقینی بنانے کیلئے اسلام کی خارجہ پالیسی کو مددو معاونت فراہم کرنا ہونا چاہیے۔ یہ نبوت کے طریقے پر قائم خلافت ہی ہوگی جو ہماری زبردست فوجی صلاحیتوں کوامریکی راج سے چھٹکارا حاصل کرنے، امت کو یکجا کرنے اور خلافت کودنیا کی صف اول کی ریاست بنانے کےلئے استعمال کرے گی جیسا کہ پہلے وہ صدیوں تک صف اوّل کی ریاست تھی۔
ریاست مدینہ میں طاقت کا توازن قائم رکھنا سب سے پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔ ہماری ایٹمی صلاحیت ہمیشہ سے دشمن کی آنکھ کا کانٹا رہی ہے۔ اس پر کوئی بھی کمپرومائز ہماری موت ہوگا۔ اس لئے موجودہ حکمرانوں کو غیر ضروری امن کا داعی بننے کی ضرورت نہیں جو قومیں ایک بار دشمنوں کے آگے جھک جائیں۔ ان کا اٹھنا بہت مشکل ہوا کرتا ہے۔ اس لئے وزیراعظم کو کوئی بات کرنے سے پہلے، سیکورٹی اداروں اور قوم کو اعتماد میں لینا چاہئے۔
٭٭٭