پاکستان کی آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت!!!

0
39

نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے او آئی سی کی وزرائے خارجہ کانفرنس میں فلسطینی عوام کے نا قابل تنسیخ حق خود ارادیت کے لئے پاکستان کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا ہے ۔اسحاق ڈار نے کہا کہ غزہ بحران کا واحد حل خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل غزہ کے حوالے سے اپنی قرارداد 2728 پر فوری عمل درآمد کو یقینی بنائے۔پاکستانکا او آئی سی کانفرنس میں موقف اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ اسرائیلی جبر کے شکار فلسطینی عوام کی حمایت کے لئے آواز اٹھاتا رہے گا۔او آئی سی مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم ہونے کے باعث اسے اجتماعی مسائل کی نشاندہی اور یکساں موقف کے حوالے سے ایک اہم پلیٹ فارم خیال کیا جاتا ہے۔اسرائیل کی غزہ میں چھ ماہ سے جاری یکطرفہ جنگ پینتیس ہزار فلسطینیوں کی جان لا چکی ہے۔دنیا کے وہ ملک جنہیں عالمی امن برقرار رکھنے کی ذمہ داری نبھانا تھی وہ ظالم و قابض اسرائیل کی کھل کر حمایت کر رہے ہیں بلکہ اسے مالی اور ہتھیاروں کی مدد بھی فراہم کر رہے ہیں تاکہ وہ مزید فلسطینیوں کو قتل کر سکے۔ان حالات میں کمزور حیثیت کے مالک مسلم ممالک احتجاج یا قرار داد پاس کرنے تک ہی محودود ہیں۔او آئی سی وزرا خارجہ کانفرنس سے کسی بڑی پیش رفت کی توقع نہیں تاہم اجتماعی آواز ضرور سامنے آ سکتی ہے۔ اسرائیل فلسطین تنازع کا دو ریاستی حل فلسطین میں دو قومی ریاستوں کے قیام کے ذریعے تنازعکو حل کرنے کی تجویز پیش کرتا ہے۔ دو ریاستی حل کے نفاذ میں اسرائیل کی الگ ریاست کے ساتھ فلسطین کی ایک آزاد ریاست کا قیام بھی شامل ہے۔اس تجویز پر عمل کی صورت میں مڈل ایسٹ میں امن قائم ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔ مئی 2024 تک، فلسطین کو اقوام متحدہ کے 72 فیصد سے زیادہ رکن ممالک نے ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کر رکھا ہے۔فلسطین 2012 سے اقوام متحدہ کی ایک غیر رکن مبصر ریاست ہے۔ تاریخی طور پرفلسطین کا خطہ عالمی تاریخ میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ کنعانی، بنی اسرائیل، اشوری، بابلی، فارسی، یونانی، رومی اور بازنطینی سب نے اس سرزمین پر اپنا نشان چھوڑا۔ اپنی تاریخی اہمیت کے علاوہ، فلسطین یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے لیے گہری مقدس اہمیت رکھتا ہے۔ پوری تاریخ میں اس خطے نے مختلف مذہبی اور نسلی گروہوں کے درمیان بقائے باہمی اور تنازعات کے ادوار دیکھے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ قرون وسطی کے دوران، جب یہودی برادریوں کو ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا، انہیں مسلم حکمرانی اور وسیع تر اسلامی دنیا میں پناہ اور تحفظ ملا۔ سلطنت عثمانیہ، جس نے 16ویں صدی سے پہلی جنگ عظیم کے خاتمے تک فلسطین کو کنٹرول کیا،اس نے یورپ میں ظلم و ستم سے بھاگنے والے یہودیوں کے لیے ایک پناہ گاہ فراہم کی۔ عثمانی حکومت کے خاتمے نے فلسطین کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد، برطانوی سلطنت نے لیگ آف نیشنز مینڈیٹ کے تحت اس خطے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ فلسطین کے لیے برطانوی مینڈیٹ، جو 1920 میں قائم ہوا، نے علاقے کے سیاسی اور سماجی منظر نامے میں اہم تبدیلیاں متعارف کرائیں، جس کے بعد کئی طرح کے تنازعات ابھرے۔ اگست 2015 میں، اقوام متحدہ میں فلسطین کے نمائندوں نے ایک قرارداد کا مسودہ پیش کیا جس کے تحت غیر رکن مبصر ریاستوں فلسطین اور ہولی سی کو اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں اپنے جھنڈے لہرانے کی اجازت ہوگی۔ ابتدائی طور پر، فلسطینیوں نے اپنے اقدام کو ہولی سی کے ساتھ مشترکہ کوشش کے طور پر پیش کیا، جس کی ہولی سی نے تردید کی۔سیکرٹری جنرل اور جنرل اسمبلی کے صدر کو لکھے گئے خط میں، اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر رون پروسر نے اس قدم کو “سیاسی پوائنٹ سکور کرنے کے لیے اقوام متحدہ کا ایک غلط استعمال قرار دیا۔ووٹنگ کے بعد، جسے 8 کے مقابلے 119 ووٹوں سے منظور کیا گیا اور 45 ممالک نے حصہ نہیں لیا، امریکی سفیر سمانتھا پاور نے کہا تھا کہ “فلسطینی پرچم بلند کرنے سے اسرائیل اور فلسطینی ایک دوسرے کے قریب نہیں آئیں گے”۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے اسے مذاکراتی تصفیہ سے باہر ریاستی دعوے کو آگے بڑھانے کی ایک “مضبوط” کوشش قرار دیا تھا۔تب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا تھاکہ یہ موقع “دنیا بھر کے فلسطینی عوام کے لیے فخر کا دن، امید کا دن ہے۔انہوں نے اعلان کیا کہ اسرائیل و فلسطین کے لئے اب اعتماد بحال کرنے کا وقت ہے اور آخر کار، دو قوموں کے لیے دو ریاستوں کا قیام۔ ترکی، عرب لیگ، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور افریقی یونین کے نمائندوں نے چند ماہ قبل اقوام متحدہ کی اعلی ترین عدالت میں کارروائی کے آخری دن فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کی قانونی حیثیت پر دلائل پیش کیے۔ چھبیس فروری دو ہزار چوبیس کو ہیگ میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میںدو ریاستی حل کے بارے میں سماعت ہوئی۔اس موقع پر او آئی سی کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طحہ نے کہا کہ ”فلسطین میں دو ریاستی حل پر مبنی منصفانہ، دیرپا اور جامع امن ہی خطے کے تمام لوگوں کی سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے اور انہیں تشدد کے چکر سے بچانے کا واحد راستہ ہے۔ ” پاکستان فلسطینیوں کے حق آزادی کا پہلے دن سے سرگرم حامی ہے،بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو قابض قرار دیا تھا۔او آئی سی میں پاکستان کا موقف اسی تاریخی حمایت کا اعادہ سمجھا جا سکتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here