کرکٹ کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے!!!

0
142
شمیم سیّد
شمیم سیّد

ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں نہ تعصب تھا نہ اقرباء پروری تھی، سب ایک قوم ہو کر سوچتے تھے اسی وجہ سے پاکستان اسپورٹس کے ہر شعبے میں یکتا تھا چاہے وہ ہاکی ہو، اسکوائش ہو، کرکٹ ہو لیکن جب سے ہمارے ملک میں علاقائی تعصب نے جنم لیا ہے ہم گرتے ہی چلے گئے ہاکی میں ہمارے پاس تمام ٹرافیاں تھیں اس کے بعد پنجاب، سندھ، بلوچستان اور پختونخواہ جیسے تعصب نے ہمارے اندر قومیت کو ختم کر دیا اور ہم اپنے علاقوں سے پہچانے جانے لگے یہی ہماری تباہی اور بربادی کا سب سے بڑا سبب ہے ہاکی تو ہماری ختم ہو ہی چکی ہے اب کرکٹ کا بھی وہی حال ہو گیا ہے جس طرح ہماری ٹیم نے ورلڈکپ میں کارکردگی دکھائی ہے اس نے تو تمام پاکستانیوں کے سر شرم سے جھکا دیئے ہیں کرکٹ کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہو اکہ ہم سپر 8 میں بھی نہیں پہنچ سکے اور یو ایس اے کی نئی اُبھرتی ٹیم جو کہ بالکل نئی تھی اس نے تہلکہ مچا دیا جب آپ ایسے لوگوں کو کرکٹ کا سربراہ بنا دینگے جس کو کرکٹ کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہیں تو وہ کس طرح کنٹرول کریگا، اپنی پسند اور نا پسند سے سلیکٹرز چُنے جاتے ہیں جو کہ یس مین ہوتے ہیں۔ کیا پاکستان میں جاوید میاں داد، وسیم اکرم اور شعیب اختر جیسے کھلاٹی نہیں ہیں جو کرکٹ کی دنیا میں اپنا نام بنا چکے ہیں۔ ان کو صرف اس لیے نہیں سلیکٹر نہیں بنایا جاتا کہ وہ چیئرمین سے بات کر سکتے ہیں اور اپنی مرضی سے میرٹ پر کھلاڑی چُن سکتے ہیں مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ہم نے جب سے پاکستان میں ڈومیسٹک کرکٹ کو ختم کیا ہے ہمارے ہاں کرکٹ کو فروغ نہیں مل رہا۔ ہمارے کھلاڑیوں کو روزگار مہیا نہیں ہے اسی وجہ سے ڈیپارٹمنٹ کی ٹیمیں نہیں بن رہی ہیں پہلے یہ تمام کھلاڑی اپنے اپنے ڈیپارٹمنٹ سے کھیلتے تھے، زبردست مقابلے ہوتے تھے لیکن اس کا سارا سہرا عمران خان کے سر جاتا ہے جنہوں نے کرکٹ کو تباہ کر دیا، جاوید میاں داد، وسیم اکرم، سعید انور، شعیب اختر جیسے کھلاڑی کہاں سے آئے، اس کے باوجود ہمارے ملک میں ٹیلنٹ ہے اور کھلاڑی پھر بھی آرہے ہیں اور ہمارے بہت سے کھلاڑیوں کو میرٹ پر نہیں لیا گیا وہ دوسرے ممالک میں کھیلنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ہمیں انڈیا سے سبق لینا چاہیے کہ وہ کس طرح اپنے ملک کیلئے کھیلتے ہیں ہم تو صرف اسی چکر میں پڑے رہے کہ بابر اعظم ویرات کوہلی سے اچھا کھلاڑی ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ وہ اپنے ملک کیلئے کھیلتے ہیں اور ہم اپنے لیے کھیلتے ہیں چاہے میچ ہار جائیں لیکن اپنا سکور کر دیں، ہماری سیاست نے ہمارے کھلاڑیوں کو پیچھے کر دیا، سرفراز احمد کا ریکارڈ دیکھ لیں اس نے کتنے میچ جتوائے بحیثیت کپتان وہ کتنی محنت کرتا تھا صرف ایک سیریز میں وہ ناکام رہا اس کو باہر کر دیا گیا اگر سرفراز کو ٹیم میں رکھا جاتا تو وہ بابر اعظم کو کامیاب کرواتا جس طرح جاوید میاں داد فیلڈ میں عمران خان کی مدد کرتا تھا۔ سرفراز کے تجربے سے بابر اعطم بہت کچھ سیکھ سکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اس کے پیچھے وہی تعصب تھا کراچی اور لاہور والا اب تو کراچی اور لاہور کو ہمارے پختون بھائیوں نے اتنی محنت سے پیچھے چھوڑ دیا ہے اور ہمارے تعصبی کھلاڑی اعجاز احمد نے جس طرح کا بیان دیا ہے پختونوں کیخلاف وہ ان کے ذہن کی عکاسی کر رہا ہے۔ امریکہ میں جس طرح ہماری ٹیم پیسہ کمانے میں لگی ہوئی تھی وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے رات دیر تک باہر رہتے تھے کھانے کھا رہے ہیں، ڈنر میں جانے کے چالیس ہزار ڈالر مانگ رہے ہیں ہونا تو یہی چاہیے کہ آئندہ سے فیملیز کو ساتھ لے کر جانے پر پابندی لگا دی جائے۔ ابھی تک کچھ کھلاڑی امریکہ میں ہی ہیں اور اپنی فیملیوں کیساتھ سیرو تفریح کر رہے ہیں۔ محسن نقوی نے ابھی تک کوئی سرجری نہیں کی بقول باسط علی کے جو خود سفارش سے آیا ہو وہ کیسے میرٹ پر کام کریگا ہمارے ہاں تو سچ بولنے پر سزا دی جاتی ہے اور باسط علی کو پی ٹی وی سے ہٹا دیا گیا ہے ابھی بھی وقت ہے کہ پی سی بی کا چیئرمین بھی تبدیل کیا جائے۔ وسیم اکرم یا شعیب اختر کو بنایا جائے میاں داد کا تعلق کراچی سے ہے اس لیے میں نے ان کا نام نہیں لیا، پوری ٹیم میں تبدیلیاں ہونی چاہیئیں روہت شرما اور ویرات کوہلی نے جس طرح اپنے آپ کو ٹی 20- سے دستبردار کیا ہے وہ ان کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے اور ہمارے ہاں وہ لوگ کھیل رہے ہیں جو اپنے آپ کو ریٹائر کر چکے ہیں یہ فرق ہے انڈین کھلاڑیوں میں اور ہمارے کھلاڑیوں میں انڈین ٹیم تو شروع ہی سے فیورٹ تھی کیونکہ ان کے پاس بیٹنگ، بائولنگ، فیلڈنگ سب کچھ بہتر تھا۔ کوہلی جس طرح فیلڈ میں جذباتی ہوتا تھا وہ دیکھنے والا تھا، فائنل میں اس نے بتا دیا کہ کس طرح کھیلا جاتا ہے، بہرحال انڈین ٹیم کو ورلڈ چیمپئن بننے پر مبارکباد۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here