تاریخ گواہ ہے کہ سیاست میں کوئی اقدام لفظ آخر نہیں ہوتا، بنگلہ دیش کچھ ایسے ہی کشمکش سے گزر رہا ہے، یہ بحرانی کیفیت اُس وقت نازل ہوئی جب وہاں کے صدر محمد شہاب الدین نے ایک میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ اُن کے پاس سابقہ وزیراعظم شیخ حسینہ کا دیا ہوا کوئی استعفیٰ کا خط نہیں ہے ، اور نہ ہی اُنہوں نے اُسے کبھی دیکھا ہے، واضح رہے کہ عارضی حکومت کے قیام سے قبل بنگلہ دیشی حکومت نے یہ اعلان کیا تھا کہ شیخ حسینہ استعفیٰ دے کر بھارت بھاگ گئی ہیں، صدر محمد شہاب الدین نے کہا کہ اُنہوں نے یہ سنا تھا کہ شیخ حسینہ نے بحیثیت وزیراعظم کے استعفیٰ دے دیا ہے، لیکن اُن کے پاس اِس کی کوئی دستاویز نہیں ہے،اُنہوں نے مزید کہا کہ وہ متعدد مرتبہ استعفیٰ کے خط کو حاصل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اُنہیں کامیابی نہیں ہوئی،شاید جلدی میں وہ یہ نہ کر سکیں، صدر شہاب الدین نے یہ باتیں اپنی سرکاری رہائش گاہ ”بنگا بھبن” میں میگزین ”روزنامہ” جانا تار چوک” کے مدیر سے کہیں لیکن اُن کی نئی باتیںخود اُن کی شخصیت کو متنازع بنا دیا ہے ، کیونکہ یہ وہی صدر ہیں جنہوں نے سابقہ وزیراعظم شیخ حسینہ کے فرار کے ایک گھنٹے کے بعد اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اُنہیں شیخ حسینہ کا استعفیٰ موصول ہوچکا ہے،صدر شہاب الدین کے اِس انکشاف کے منظر عام پر آنے کے فورا”بعد متعدد طلبا کی تنظیموں نے بنگا بھبن پر دھاوا بول دیا اور اُن سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں، اُن کا موقف ہے کہ صدر دیدہ و دانستہ طور پر بنگلہ دیش کو بحران میں ڈبونے کی کوشش کی ہے،تاہم برطانیہ اور امریکا میں مقیم با اثر بنگلہ دیشی ماہرین قانون وہاں کی عارضی حکومت کے آئینی جواز پر اُنگلیاں اٹھارہے ہیں، اُن کی دلیل ہے کہ وہاں منتقلی حکومت آئینی تقاضے کے عین مطابق نہیں تھی، اُن کی رائے میں بنگلہ دیش کی موجودہ عارضی حکومت بغیر کسی آئینی یا قانونی اقدار کے ملک پر مسلط ہے اور اِسے مستقبل قریب میں اِس خلا کو ماضی کے آئینی ساخت یا کسی نئے ساخت میں تشکیل دینا ہے، اُن کے تجزیئے کے مطابق وزیراعظم کی عدم موجودگی آئین کی شق جس میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ اُس وقت تک برقرار رہیگا جب تک کے اُس کا کوئی جانشین مقرر نہ ہو غیر فعال ہوگیا ہے۔ بنگلہ دیش کے موجودہ آئین کے مطابق وزیراعظم کا عدم دستیاب ہونا ایک غیر معمولی صورتحال ہے لیکن آئین میں یہ واضح طور پر کہا گیا ہے ایسے حالات میں حکومت کے فرض منصبی کو کس طرح ادا کیا جائے،ایسے حالات میں صدر مملکت کو خود اپنے اختیارات میں توسیع کردینا چاہئے، اُسے وزیراعظم کی ذمہ داری خود نبھانی چاہئے یا اُسے کوئی دوسرا وزیراعظم تلاش کرنا چاہئے جسے پارلیمنٹ کی اکثریت کی حمایت حاصل ہولیکن اِن دلیلوں کے جواب میں عارضی حکومت کے ایک ایڈوائزر ناہید اسلام نے کہا کہ عوامی لیگ کی حکومت نے طلبا کی جائز کوٹہ سسٹم کی تحریک کو کچلنے کیلئے قتل عام کیا ، گزشتہ سولہ سال سے نہ ہی آئین اور نہ ہی انسانی حقوق کا احترام کیا گیا، بجائے اِس کے ایک ظالمانہ اور فسطائی حکومت مسلط کی گئی جیسا کہ وعدہ کیا گیا ہے کہ عارضی حکومت انتخابات کرانے کے بعد رخصت ہوجائیگی، لیکن عارضی حکومت کا قیام ایک انقلاب کے بعد وجود میں آیا ہے، عارضی حکومت کی ذمہ داری نہ صرف انتخابات کروانا ہے ، بلکہ ایسے ضروری اصلاحات کا نفاذ کرنا بھی ہے جو عوام کی تحریک و مطالبے کی عکاسی کرے، طلبا کی تحریک صرف شیخ حسینہ کو محمد یونس سے تبدیل کرنے کیلئے نہیں تھی بلکہ یہ نظام حیات کو مکمل طور پر درست کرنے کیلئے تھی۔بنگلہ دیش میں اِن دنوں انڈے کا بحران بھی آیا ہوا ہے، انڈے کی قیمت کومتوازن رکھنے کیلئے بنگلہ دیشی حکومت نے بھارت سے ساڑھے آٹھ کروڑ انڈے فوری طور پر درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، مذکورہ انڈے کی قیمت ساڑھے تین ملین ڈالر سے تجاوز کر سکتی ہے، معلوم ہوا ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت کو اپنے ملک کے عوام کو پروٹین کی فراوانی کو برقرار رکھنے کیلئے یہ اقدام کرنا پڑا، انڈے کی نا دستیابی عوام میں ہیجانی کیفیت پیدا کرسکتی ہے،بنگلہ دیشی حکومت نے یہ عندیہ دیا ہے کہ عوام کو پروٹین کی سخت ضرورت ہے ورنہ وہ جلاؤ گھیراؤ پھر شروع کر سکتے ہیں،وہ انڈا کھا کر پُرسکون رہ سکتے ہیں لیکن دُبلا پتلا، لانبا بنگالی ایک دِن میں دوانڈے کھا کر زیادہ پاگل بن سکتا ہے، اِسی لئے تو پاکستان میں عام طور پر کسی مشتعل شخص کو یہ کہا جاتا ہے کہ ” کیا انڈا کھا لیا ہے؟”تاہم پاکستان میں انڈے کی قیمت بنگلہ دیش اور بھارت سے بھی زیادہ یعنی ایک انڈے کی قیمت 35 روپے ہے ، جبکہ بنگلہ دیش میں انڈے کی قحط کے باوجود ایک انڈا پانچ ٹکا میں مل جاتا ہے، اِسی لئے تو بنگالی دبا کر انڈا کھاتے ہیں اور حکومت کو بھارت سے انڈا درآمد کرنے پر مجبور کر دیتے ہیںبہرکیف بنگلہ دیشی حکومت کے اہلکاروں کو اِن دنوں کوئی اور کام نہیں ماسوائے اِس کے وہ انڈے کا حساب کریں، انڈا گنیں اور مخالفین کے سر پہ انڈا ماریں،لیکن ساڑھ آٹھ کروڑ انڈوں میں سے ایک انڈا بھی اب تک بنگلہ دیش نہیں پہنچا ہے وجہ اِس کی یہ ہے کہ بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ سرحدی علاقوں کا دورہ کرنے کیلئے آرہے ہیں ، اِس لئے بھارتی حکومت نے پیٹرا پول کے راستے کو ایک ہفتے کیلئے بند کردیا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت انگریزوں کی جوتیاں اب تک چاٹ رہی ہے،مزید برآں اتنے بڑے تعداد میں انڈے فروخت کرنا گوں نا گوں وسوسے کو جنم دیتا ہے کہ آیا بھارتی حکومت بنگلہ دیشیوں کو مرغی کا انڈا بیچ رہی ہے یا کچوے یا کوے کا، بھائی صاحب کتنے انڈے لینے ہیں؟ ایک یا ایک درجن؟ کروڑ کی بات کرویہ ہے ،بنگلہ دیش کا سوداگر۔