ٹرمپ کی دھمکی اور افغان رد عمل!!!

0
8

صدر ٹرمپ نے افغانستان کی جنگ سے نکلنے کا ایک تاریخی فیصلہ کیا تھا لیکن جن حالات میں صدر بائیڈن نے افرا تفری میں امریکی اور غیر ملکی افواج کو افغانستان سے باہر نکالا اور اسلحہ کا بھاری ذخیرہ افغانستان میں چھوڑا ، آج اس کے اثرات سے افغانستان کے پڑوسی ممالک خطرات کا شکار ہیں، یہ ہتھیار نہ صرف انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں گئے بلکہ بلیک مارکیٹ میں بھی فروخت ہوتے رہے ہیں۔صدر ٹرمپ نے ہتھیاروں کو واپس نہ کئے جانے پر سخت ردعمل دیتے ہوئے مالی امداد روکنے کی دھمکی دی، جو اس وقت افغانستان کی معاشی زندگی کی شہ رگ کے مترادف ہے۔ امریکہ اورافغان طالبان کے مابین کشیدگی ابھی تک کم نہیں ہوسکی ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھانے سے قبل ہی دھمکی دی تھی کہ افغان طالبان امریکی طیارے، جنگی سازو سامان اور مواصلاتی آلات واپس کرے، جس کے بعد عالمی خبروں سے دور ہونے والے افغان طالبان ایک بار پھر موضوع بحث بن گئے کیونکہ صدر ٹرمپ نے افغانستان میں چھوڑے گئے سات ارب ڈالر مالیت کے امریکی ہتھیاروں کی واپسی کا سختی سے مطالبہ کیا لیکن ان کے مطالبے کو افغان طالبان نے نہ صرف مسترد بلکہ مزید جدید ہتھیاروں کی فراہمی کا مطالبہ کر دیا۔ افغان طالبان کا موقف ہے کہ یہ ہتھیار داعش خراسان جیسے دشمنوں کے خلاف لڑائی میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ حسب توقع صدر ٹرمپ افغان طالبان سمیت کسی بھی انتہا پسند مسلح گروپ کو ، خطے میں کسی بھی قیمت پرمضبوط نہیں دیکھنا چاہتے جو مستقبل میں امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے لئے چیلنج بن سکے۔ انخلا کے بعد سے امریکہ نے افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک دو ارب ڈالر سے زائد کی انسانی امداد فراہم کی جا چکی ہے۔ امریکہ اور افغان عبوری حکومت کے درمیان قیدیوں کے تبادلے طور پر مذاکرات کا ایک سلسلہ بھی جاری رہا ہے اور اس کے نتیجے میں افغان طالبان نے دو امریکی شہریوں ریان کوربیٹ اور ویلیم میکنتھی کو رہا کیا، جنہیں کئی سالوں سے قید میں رکھا گیا تھا۔ اس کے بدلے میں امریکی حکومت نے افغان طالبان کے ایک اہم رہنما خان محمد کو رہا کیا، جو مبینہ طور پرمنشیات اور دہشت گردی کے الزامات میں عمر قید کاٹ رہے تھے۔ اس پیش رفت کو دوحہ معاہدے کے بعد بھی جاری تسلسل کا ایک حصہ قرار دیا جاسکتا ہے تاہم کچھ لو کچھ دو کی پالیسی کی تحت یہ کاروائی عمل آئی، مگر بنیادی تنازعات بدستور موجود ہیں۔ صدر ٹرمپ کے ایک ایگزیکٹو آرڈر نے افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے ایک اہم آرڈر جاری کردیا ، یہ ان سہولت کاروں کے سخت دھچکے سے کم نہیں جو غنی انتظامیہ کے دور میں امریکی مفادات کی معاونت کے لئے افغان طالبان کے خلاف سہولت کاری کررہے تھے۔ امریکہ میں آباد ہونے کے لیے کلیئر کیے گئے 1660 افغان شہریوں کی داخلے کی اجازت معطل کر دی گئی ہے۔ ان متاثرین میں امریکی فوجیوں کے خاندان بھی شامل ہیں، جو افغان طالبان کے خوف سے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ حالیہ دنوں پاکستان میں موجود ایسے کئی افغانیوں کے حوالے سے ایسی خبریں زردعام تھیں کہ اجازت نامے کے بغیر ایک بڑی تعداد ملک میں رہ رہی ہے اور امریکہ اپنی پالیسی کے تحت ایک مخصوص طریقہ کار کے مطابق انہیں امریکہ بلائے گا ، تاہم اب صدر ٹرمپ کی جانب سے ایگزیکٹو آرڈر نے ان کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان اٹھا دئیے ہیں ، اگر یہ کہاجائے کہ پاکستان کے لئے بھی ایسے افغانی اب ایک امتحان ثابت ہوں گے جنہیں امریکہ قبول کرنے سے انکار کررہا ہے ۔ افغان عبوری حکومت کی جانب سے دوحہ معاہدے کے برخلاف کئی ایسی پالیساں نافذ ہوئی ہیں جس پر عالمی برداری نے اپنے سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے ، یقینی طور پر صدر ٹرمپ کے دوسرے دور اقتدار میں اب یہ خطے میں کئی اہم سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ایک طرف افغانستان کو مالی امداد اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کی ضرورت ہے، تو دوسری جانب امریکہ ایک بار پھر افغان طالبان کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کے لیے مالی اور سفارتی دبا کا استعمال کرے گا۔ داعش خراسان کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں، طالبان حکومت کی داخلی ناکامیاں اور امریکی سیاست میں بدلتے رجحانات اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کر رہے ہیں۔جبکہ امریکی انخلا کے بعد جس طرح پاکستان کو نظر انداز کیا اور مملکت کو دہشت گردوں کے رحم و کر م پر چھوڑ دیا گیا ،وہ ایک سنگین معاملہ ہے ، چونکہ صدر ٹرمپ جنوبی ایشیائی ممالک کے لئے ایک الگ پالیسی اور بالخصوص پاکستان کے لئے الگ رجحان رکھتے ہیں لہذا آنے والے دور میںامریکی پالیسیوں کی کئی تبدیلیاں خطے میں اثرانداز ہوسکتی ہیں ۔افغان عبوری حکومت چاہتی ہے کہ امریکہ افغانستان کے لئے دیئے گئے امدادی رقم کے منجمد اثاثے بحال کرے اور ان کی حکومت کو باقاعدہ تسلیم کرے، مگر بین الاقوامی برادری افغان طالبان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ اور خواتین کی تعلیم و حقوق کے حوالے سے سخت تحفظات رکھتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکہ اور افغان عبوری حکومت دوحہ معاہدے کے مطابق اپنے معاملات و تنازعات کو مذاکرات کی میز پر حل کریں اور افغان عوام کی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دیں۔ اگرچہ دونوں جانب سے سخت موقف اپنایا گیا ہے، مگر وقت کا تقاضا ہے کہ عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ خطے میں دیرپا امن اور استحکام ممکن ہو سکے۔افغان عبوری حکومت اس وقت جذبات کے بجائے افغان عوام کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرے ۔ چین اور روس جیسے ممالک افغان طالبان کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر وہ بھی ان کی مکمل حمایت سے گریز کر رہے ہیں۔ پاکستان، جو ہمیشہ سے افغانستان کے سیاسی منظرنامے کا اہم کھلاڑی رہا ہے، اب بھی افغان طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے تامل برت رہاہے۔ اس صورتحال میں، افغان طالبان کی جانب سے عالمی امداد کے حصول کی کوششیں مزید مشکل ہوتی جا رہی ہیں۔افغان عوام اس تمام کشمکش کا سب سے بڑا شکار ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here