”جنگجو قوم بننا کتنا ضروری؟ ”

0
124

”جنگجو قوم بننا
کتنا ضروری؟ ”

انسان زندگی میں خود کو متحرک رکھنے کے لیے اپنے اہداف مقرر کرتا ہے ، زندگی میں کچھ بننے اور دوسروں سے آگے نکلنے کی لگن ہی اس کو تمام مشکلات پر عبور حاصل کرنا سیکھاتی ہے ، اگر زندگی میں کوئی حریف، اہداف نہ ہوں تو انسان کاہلی اور سستی سے ہی اپنی موت آپ مر جاتا ہے ، بالکل ایسے ہی قومیں بھی اپنے اہداف مقرر کرتی ہیں اور پھر ان کو حاصل کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے ،دنیا میں کئی ممالک ایک دوسرے کے حریف ہیں اور ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کی تگ و دو میں رہتے ہیں چاہے وہ معاشی میدان ہو یا جنگی میدان، پاکستان اور بھارت کی مثال بھی ایسی ہی ہے دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لیے ہتھیاروں کی لمبی لائن لگا رکھی ہے ، جوہری ہتھیاروں کا بھی وسیع ذخیرہ رکھتے ہیں لیکن کیا اچھا ہوتا کہ پاکستان ہتھیاروں کے ساتھ معاشی، تعلیمی ، ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی بھارت کو پیچھے چھوڑنے میں توانائیاں صرف کرتا،مقابلہ ، جنگ قوموں کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں لڑتی رہیں، وہی دنیا پر حکمرانی کرتی رہیں جنہوں نے تلوار پھینک دی، وہ صفحہ ہستی سے مٹ گئیں، مغلوں کا انجام آپ کے سامنے ہے۔تاریخ میں سکندرِ اعظم کا نام بھی جعلی حروف میں درج ہے، جس نے اْس دنیا کو فتح کرنے کی ٹھانی، مسلسل جنگیں لڑیں، اور آج تک دنیا اْس کا نام لیتی ہے۔ منگول ،چنگیز خان اور ہلاکو خان نے آدھی دنیا روند ڈالی، وہ بھی جنگوں کے ذریعے اور تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ان کا نام رقم ہو گیا۔عثمانی سلطنت نے جو 600سال تک حکومت کی وہ صرف جہاد اور مسلسل فتوحات کا نتیجہ تھا، خلفائے راشدین نے تلوار کے ذریعے حق کا پرچم بلند کیا، اور اسلام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا، نپولین کی جنگیں اس کی شناخت بنیں، فرانس کو ایک عالمی طاقت بنایا۔ جرمنی، جاپان، فرانس، کوریا بیسویں صدی کی خوفناک جنگوں کے مرکزی کردار ہیں اور آج یہ ممالک ٹیکنالوجی، معیشت اور عسکریت میں دنیا کے ٹاپ ممالک میں شمار ہوتے ہیں اگر جنگیں تباہی کا دوسرا نام ہوتیں، تو ان ممالک کے نام آج تاریخ کے کوڑے دان میں ہوتے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اگر ہم اسلامی پس منظر پر نظر دوڑائیں تو اگر جنگیں غلط ہوتیں، تو غزوہ بدر، احد، خندق جیسے معرکے کبھی پیش نہ آتے اگر جہاد نقصان دہ ہوتا، تو مسلمان قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں نہ توڑتے، اگر قربانی بے فائدہ ہوتی، تو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کربلا میں خون نہ دیتے بلکہ صلح کر کے جان بچا لیتے۔آج امریکہ، اسرائیل، روس مسلسل حالتِ جنگ میں ہیںمگر ہر سال پہلے سے زیادہ طاقتور ہو رہے ہیں جبکہ ہم، جنہیں امن کے خواب دکھائے گئے، کمزور، منتشر اور غلام بنے بیٹھے ہیں،جنگ نہ لڑنے والی قومیں یا تو غلام بن جاتی ہیں یا تاریخ سے مٹ جاتی ہیں، ایک کہاوت ہے کہ جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اْن کا ہوتا ہے جن کا جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہوتالیکن اگر جنگ نہ لڑی جائے تو پھر سب کچھ ہی چھن جاتا ہے ، عزت، زمین، ایمان، حتیٰ کہ پہچان بھی!لہٰذااگر ہمیں اپنے مقدر بدلنے ہیں،اگر ہمیں اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کرنا ہے اگر ہمیں دشمنوں کو جواب دینا ہے تو ہمیں لڑنا ہوگا، قربانیاں دینا ہوں گی اور یاد رکھو!”جہاد ”کمزوری کی نہیں، غیرت کی دلیل ہے!جنگ بزدل کے لیے تباہی ہے، مگر غیرت مند کے لیے بقا، لہٰذاسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان اور بھارت کو آپس میں لڑتے رہنا چاہئے جواب ہاں میں ہے لیکن یہ لڑائی غربت میں کمی ، خوشحالی ، ترقی، ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے میں ہونی چاہئے لیکن جہاں ہتھیاروں کو استعمال ضروری ہوجائے وہاں سے پیچھے بھی نہیں ہٹنا چاہئے ، اپنے ”حق” کے لیے میدان میں آنا کوئی بری بات نہیں ہے چاہے یہ کسی کی انفرادی زندگی میں ہو یا کسی قوم کی زندگی میں ، ہمیں ہر فورم پر ہر محاذ کر ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہئے ، اس وقت دنیا جنگوں کی زد میں آئی ہوئی ہے ، دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں آپس میں سینگ پھنسائے بیٹھی ہیں ، ایک طرف روس اور یوکرائن کے درمیان جنگ زوروں سے جاری ہے تو دوسری طرف دنیا کی بڑی ایٹمی طاقتیں پاکستان اور بھارت ایک دوسرے پر حملہ آور ہو چکے ہیں۔دنیا کی سپر پاور امریکہ اس وقت اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے دنیا سے دولت سمیٹنے کے چکر میں ہے ، صدر ٹرمپ نے مستقبل میں امریکہ کی معاشی کمزوری پر نظر رکھتے ہوئے دنیا بھر کے ممالک پر ٹیرف پالیسی لاگو کی ہے تاکہ مستقبل میں امریکہ کی معیشت کو ہر صورت مضبوط رکھا جائے کیونکہ جب تک امریکہ کی معیشت مضبوط رہے گی، اس کی اجارہ داری رہے گی جب اس کی معیشت زوال پذیر ہوگی تو دنیا میں اس کی حکمرانی ختم ہو جائے گی اور اگلی سپر پاور چین ہوگی ، اسی لیے یہ دونوں ممالک کسی نہ کسی محاذ پر ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہتے ہیں ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here