فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
151

فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! ایک دن مناجات سحر کے وقت بڑے ہی رقت انگیز کیف کے ساتھ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السّلام اپنے رب کے حضور یہ دعا مانگی۔ ”پروردگار مجھے نیکو کارفرزند عطا فرما؟ لب ہائے خلیل سے نکلی ہوئی دعا فوراً ہی بارگاہ عزت میں شرف قبول سے سرفراز ہوئی۔ عالم قدس سے آواز آئی۔ ”ہم نے ایک سمجھ دار لڑکے کی انہیں خوشخبری دی” کچھ ہی عرصے کے بعد ایک سہانی صبح کو نسیم صبا نے اکناف عالم میں یہ مژدہ جانفزا سنایا کہ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السّلام کے گھر چمنستان قدس کا ایک پھول کھلا یعنی جگر گوشہ خلیل حضرت اسماعیل علیہ السّلام پردہ غیب سے خاکدان گیتی پر جلوہ افروز ہوئے۔
ایسا کہاں بہار میں رنگینیوں کا جوش شامل کسی کا خون تمنا ضرور تھا
ملک شام کا سر سبز وشاداب علاقہ جہاں حضرت ابراہیم علیہ السّلام پیدا ہوئے ابھی کچھ ہی دن گزرنے پائے تھے کہ ہاقف غیب کے خاموش اشارہ پر حضرت ابراہیم علیہ السّلام اپنی رفقیہ حیات حضرت ہاجرہ اور اپنے شیر خوار صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو اپنے ہمراہ لے کر چل پڑے۔ تین افراد پر مشتمل یہ نورانی قافلہ شب و روز چلتا ہوا آخر ایک دن پہاڑیوں کے ایک وسیع دامن میں پہنچا اور وہیں ٹھہر گیا اک ان کی نگاہ آشنانے سب سے بیگانہ کردیا۔ کچھ ہی فاصلہ پر ٹوٹی ہوئی دیواروں کے کچھ نشانات نظر آئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے فرط ادب سے اپنا سرجھکا دیا اور اپنی دفیقہ حیات ہاجرہ سے ہکا کہ دیکھو! روئے زمین پر یہی خدائے ذوالجلال کا محترم گھر خانہ خدا ہے یہی کائنات ارضی کا مرکز تعظیم ہے یہی ابن آدم کی معزز پیشانیوں کی سجدہ گاہ ہے اور پھر یہی ہمارے سفر کی آخری منزل ہے اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے انتہائی عجزونیاز کے ساتھ ٹوٹی ہوئی دیواروں کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر یہ رقت انگیز دعا مانگی”اے پروردگار! تیرے محترم گھر کے قریب ایک بے آب وگیاہ وادی میں اپنا کنبہ آباد کر رہا ہوں تاکہ وہ نماز پڑھیں اور تیرے گھر کو سجدوں سے بسائیں۔ پس تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کردے کہ وہ ان کی طرف مائل ہوجائیں۔ اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما، تاکہ وہ تیرا شکر ادا کریں”برستے ہوئے آنسوئوں کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے یہ دعا مانگی اور اپنا سارا کنبہ خدا کی امان میں چھوڑ کر بیت المقدس چلے گئے۔ ذرا سوچئے! ایک لق ودق صحرا، تپتے ہوئے کہار اور اسباب زندگی سے بے نیاز وادی، ایسے سنسان ماحول میں اپنے بچوں کو تن تنہا چھوڑ جانا کس کا کردار ہوسکتا ہے جو کوئی آپ سے خدا کی چارہ ساز قدرتوں کا تماشائی ہو۔ خدا پر اعتماد کامل کسی ایسی مثال دنیا کی کسی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ادھر حضرت ابراہیم بادیدہ پرنم رخصت ہوئے اور اُدھر خدائے کار ساز نے غیبی تائیدوں کے دروازے کھول دیئے ریگ زار کے سینے سے زمزم صافی پھوٹ پڑا اس خاموش وادی کو انسانوں کی چہل پہل سے آباد کرنے کا انتظام ہوا کہ قبیلہ بنی جرھم خانہ بدوش کا روں صحرائوں کی خاک اڑاتا کہیں سے آپہنچا اور اس چشمہ سیال کے کنارے آباد ہوگیا اور چند ہی دنوں میں خدا کے محترم گھر کے قریب غم گسار پڑوسیوں کا ایک جیتا جاگتا شہر بس گیا۔
وہیں حضرت اسماعیل علیہ السّلام اپنی ففیق ماں کی آغوش میں پروان چھتے رہے۔ یہاں تک کہ جب عنفوان شباب کی منزل میں قدم رکھا تو ان کے محترم باب حضرت ابراہیم علیہ السّلام ملک شام سے م مکہ شریف چلے آئے اور ادھر ہی بودو باش اختیار کرلی ایک خوشگوار صبح کو آسمانوں کے دروازے کھول گئے۔ عالم قدس کے فرشتے مکہ کی نورانی فضائوں میں تیرنے لگے۔ اسی عالم کیف میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو اپنے قریب بلایا اور بڑے ہی پیار بھرے انداز میں کہا:”میرے لاڈلے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں۔ بتائوں اس کے متعلق کیا رائے ہے؟”ارجمند بیٹے نے نہایت خندہ پیشانی سے جواب دیا میرے شفیق باپ! خواب کے ذریعہ آپ کو جس بات کم حکم دیا گیا ہے بغیر کسی پس وبیش کے اسے کر گزریئے خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر وشاکر پائیں گے۔ سرفروش بیٹے کا جواب سن کر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا دل جوش مجبت سے بھر گیا۔ ایک نئے عزم کے ساتھ اٹھے اور کائنات گیتی پر تسلیم رضا کا ایک نرالہ امتحان دینے کے لئے اپنے اکلوتے بیٹے کو ہمراہ لے کر معنیٰ کی وادی کی طرف چل پڑے۔ قربان گاہ میں پہنچ کر چھری نکالی اور آنکھوں پر پٹی باندھ لی مبادہ پدری شفقت کا ہاتھ کہیں کانپ نہ جائے۔ پھر جب دونوں نے اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دیا اور ابراہیم علیہ السّلام نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا لیا تاکہ ذبح کریں ٹھہر جائیے! ذرا کئی برس پیچھے پلٹ کر یہ رقت انگیز منظر نگاہوں کے سامنے لائے کہ سنسان وادی میں ایک نوے سال کا بوڑھا با پہے جسے مناجات سحر کے بعد خاندان کا چشم و چراغ ذبح کرنے کا حکم ہوا جو ساری دنیا سے بڑھ کر اس کی نگاہوں کا محبوب ہے۔ اب اسی محبوب کے قتل کے لئے اس کی آستینیں چڑھ چکی ہیں اور ہاتھ میں تیز خنجر ہے دوسری طرف نوجوان بیٹا ہے فیروز بخت پیغمبر زادہ نے جس استقلال، جس عزم اور جس حیرت انگیز ایثار سے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کیا۔ اس کا صلہ یہی تھا کہ حکم قربانی قیامت تک اس کے نام کی یادگار من جائے پہلے تو اس کی جگہ جنتی دنبہ ذبح ہوا جو جبریل علیہ السّلام کی بڑی تیزی کے ساتھ منیٰ کے مقام میں لے آئے۔ دوسری قوموں کے مذہب زندگی میں قربانی ایک اختیاری چیز ہے۔لیکن ہمارے یہاں ہر صاحب استطاعت پر قربانی واجب ہے قربانی سے مرادو مقصود گوشت پوست نہیں بلکہ اس جذبہ اخلاص کو بیدار کرنا ہے جو کائنات گیتی کے دل کی دھڑکن ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here