محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے ،آج قوم کی بیٹی پرفیسر شاذیہ پیر ذادہ صاحبہ کی تحریر کو ایک سند ثابت ہوئی جس کی نظروں نے ایک گھٹیا سوچ رکھنے والے انسان کو پہچان لیا تھا پہلے آپ مندرجہ ذیل تحریر پڑھیں پھر اس پر تجزیہ ہوگا ۔جاوید اختر پہ یہ تحریر میں نے آج سے سوا دو سال پہلے لکھی تھی جب وہ پاکستان آئے تھے اور ان کو بہت زیادہ عزت و تکریم دی گئی تھی لیکن انہیں وہ تکریم ہضم نہیں ہوئی اور وہ پاکستانیوں کو جوتا مار کر گئے تھے، آج مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ آج سے سوا دو سال پہلے بھی میری سوچ ان کے بارے میں کتنی درست تھی، “غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ دو میں”میرے سسر انتہائی سیدھے سادے اللہ لوک بندے تھے،ساس کے انتقال کے بعد وہ ہمارے پاس دبئی ہی شفٹ ہوگئے تھے، وہیں سے ہم دونوں نے ایک دوسرے کو جاننا شروع کیاپھر تو ایسا ہونے لگا کہ میرے شوہر سے زیادہ ابو مجھ سے اپنے دل کی باتیں کرنے لگے،ابو کی ایک عادت سے میں بہت چڑتی تھی کہ خاندان میں کسی کے ہاں بھی رشتہ طے ہوتا، وہ گھر والے ان کو بتانے کی زحمت بھی نہ کرتے حالانکہ وہ خاندان کے بڑے تھے،ان کو ادھر ادھر سے پتا چلتا،وہ خود کال کر کے مبارکباد دیتے اور آگے سے سنتے آگئی آپ کو ہماری یاد یا بڑی جلدی خیال آگیا،میں سلگ کر رہ جاتی،ان کو باپ کی جگہ سمجھتی تھی،ان کی ناقدری مجھ سے برداشت نہیں ہوتی تھی لیکن نہ ابو نے فون کرنا چھوڑا اور نہ میں نے جلنا کڑھنا،آج یہ بات اس لیے یاد آئی کہ جاوید اختر نے پاکستان آ کر ہمارے درمیان بیٹھ ہمیں برُا بھلا کہا ہے اور اس ہال میں بیٹھے کسی بھی پاکستانی کی قومی حمیت اور غیرت نہیں جاگی،کسی کے اندر اتنی ہمت نہیں تھی کہ کہتا کہ اگر تمہیں برا لگ رہا ہے کہ ہم نے آج تک لتا منگیشکر کو نہیں بلایا تو تم غیرت کھاتے،تم کیوں آگئے پاکستان. تمہیں اس تقریب کا بائیکاٹ کرنا چاہیے تھا،دوسرا کیا جاوید اختر کو یہ علم نہیں کہ پاکستانی فنکاروں کے ساتھ ہندوستان میں کیا سلوک کیا گیا ہے،کیا شیو سینا کے غنڈوں نے نصرت فتح علی خان کا پروگرام بند نہیں کروایا،کیا کامیڈی شو میں شکیل صدیقی کی اینٹری بین نہیں کی،کیا ٹی وی کے میوزک شوز میں نام لے کر راحت فتح علی خان، عاطف اسلم اور علی ظفر سے ہندوستانی فلموں میں گیت گوانے کی مذمت نہیں کی گئی، اس وقت جاوید اختر کدھر تھے،پچیس سال سے ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ دن رات کا واسطہ ہے کہ اس لیے الحمد للہ امت مسلمہ کے درد میں اٹھارہ سال کی عمر سے ہی افاقہ ہوچکا ہے،یہ بھی جانتی ہوں کہ پاکستان کو برا بھلا کہنا جاوید اختر کی مجبوری ہے، ان کو وہیں رہنا ہے لیکن یہ شاید نہیں جانتے کہ پاکستان کو برا بھلا کہہ کر بھی آپ پرائے ہی ہیں چاہے آپ خود کو اعلانیہ لادین کہیں،کیا کچھ عرصہ پہلے آپ کی بیگم شبانہ اعظمی نے بیان نہیں دیا تھا کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کو ممبئی میں کرائے پہ گھر نہیں مل رہا،یہی شکایت عمران ہاشمی نے بھی کی تھی، دور کیوں جائیں ابھی کچھ دن پہلے ہی شاہ رخ خان کی فلم پٹھان پر کیا طوفان برپا کیا گیا تھا، اس سے سبھی واقف ہیںاور لتا منگیشکر کے جنازے پر دعا کر کے پھونک مارنے پہ شاہ رخ پہ الزام نہیں لگایا گیا کہ اس نے میت پہ تھوکا ہے۔
بہرحال یہ آپ کے گھر کا معاملہ ہے،ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ آپ کے ساتھ آپ کے گھر میں کیا سلوک ہوتا ہے جس طرح ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستانیوں کے حالات سے کوئی مسئلہ نہیں،ہمارے بھی یہی جذبات ہیںلیکن ہمارے گھر میں آ کر ہمیں باتیں سنا کر جانے والے یہ یاد رکھیں کہ سارے پاکستانی اس ہال میں بیٹھے ہوئے پاکستانیوں کی طرح قومی حمیت اور غیرت سے عاری نہیں،اس کی مذمت ہوگی اور شدید ہوگی اور ہر غیرت مند پاکستانی اس پہ سوال ضرور اٹھائے گا کیونکہ گھر تو آخر اپنا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر پڑھ کر جاوید اختر صاحب کا متنازعہ بیان آپ پڑھیں تو نہ صرف آپکو غصہ آئیگا بلکہ آپ اس بات سے متفق نظر آئینگے کہ پاکستان میں موجود پروفیسر شاذیہ پیر ذادہ جاوید صاحب کو بہت پہلے پہچان چکی تھیں اور اسکا اظہار کردیا تھا لیکن پاکستانی قوم نے اپنی روایتی مہمان نوازی اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مہمان سمجھ کر ایک ادیب و دانشور جان کر جاوید اختر کو عزت دی جسکے وہ قابل نہ تھے انڈو پاک حالیہ جنگ کے بعد یہ بات اکثر مشاھدے میں آء کہ نہ صرف جاوید اختر بلکہ انڈیا کے کچھ علما سمجھے جانے والے لوگوں نے بغض پاکستان میں وہ کچھ کہا جو انکی آخرت خراب ہونے کا سبب بن سکتا ہے ایسا نہیں پاکستان میں موجود کلمہ گو مسلمان دنیا کے کسی بھی مسلمان کو اپنا نہیں سمجھتے بلکہ انکے دل کو تکلیف ہوتی ہے ایسے لوگوں کے منہ سے غیر ذمہ دارانہ باتیں اور نفرت پر مبنی بیانات پڑھ کر ایک لکھا پڑھا انسان اور ادیب جب ایسا ہوسکتا ہے تو عام انسان کا عالم کیا ہوگا اسکی بنیادی وجہ اگر آپ سوچیں کیا ہوسکتی ہے تو وہ ھندوستان کا نظام تعلیم ہے جہاں سرکاری سرپرستی میں اسکولوں میں بچوں کی برین واشنگ کی جاتی ہے انکی ذندگی کا مقصد بس پاکستان سے نفرت کرنا دنیا کے ہر مسئلے پر براء کو بنا سوچے سمجھے بنا ثبوت پاکستان سے منسوب کردینا !! یہ تو کچھ نہیں بلکہ دو مذاھب کا بیک وقت حامی ہونا ان پر عمل گھر میں مسجد بھی مندر بھی بنانا توبہ توبہ یہ کیسا سیکولر پن ہے اور یہ کونسا نظام ہے اور کون سی شرافت ہے !!؟؟ میرا پیغام پاکستانیوں کو یہی ہے ھندوستان کے ہر باشندے کا مذھب ھندوستانیت ہے بعد میں وہ کچھ اور ہیں اکثریت ایسی ہی ہے ہم نے بزرگوں سے سنا تھا لکھے پڑھے جاھل جاوید اختر جہنمی نے اس بات کو ثابت کردیا انکو جواب لکھا ہے آپ تمنا نہ کریں جاوید صاحب جہنم میں تو آپ اب بھی رہ رہے ہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں جب تک محب وطن پاکستانی پروفیسر شاذیہ اور کاظم رضا جیسے موجود ہیں وہ اپنی قلمی ذمہ داری ادا کرتے رہیں گے اور آپکی بے تکی بے وقت بدتمیذی پر آپ کو جواب دیتے رہیں گے ۔
آپ ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں پیشاب پیا جاتا ہے گھی جلایا جاتا ہے دودھ بہادیا جاتا ہے آپکی اوقات وہاں پیسہ ہونے کے باوجود ہر جگہ گھر نہیں لے سکتے بلکہ مسلمان دیکھ کر گھٹیا علاقوں اور نیچی زات والوں کے محلے میں ہی آپکو قیام کی اجازت ہے یا پھر آپ ھندو بیوی رکھیں جو آپکے بچوں کو بھی ھندو بناڈالے !! یہ سب زات پات کی مذاھب کی کشتی پر سوار انسان کیا آپ چاھتے ہیں پاکستان بھی آپ کے جیسے لکھے پڑھے جاھلیت پر مبنی معاشرے کی بنیاد رکھے اور انکے لکھے پڑھے طبقے میں بھی آپکی طرح نفرت کا زہر بھرا ہو ؟؟ افسوس ہے بہت آپکی اس حرکت اور بیان پر جو آپ نے دیا اور اپنے دل کا زہر تحریر میں اور بیان میں لائے ہماری دعا ہے اللہ یہ نفرت و کدورت اور بدعقیدگی آپ سے دور فرمائے اور آپ کو توبہ کی توفیق ملے ساتھ اپنے بیان پر معافی کی بھی کیونکہ معاف کرنے والی زات بڑی ہے اور ہم پاکستانی بھی بڑے دل والے ہیں، آپکی مجبوری سمجھ معاف کردینگے ۔
٭٭٭













