وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی جانب سے ایران کے حق میں کی گئی حالیہ جرات مندانہ حمایت اور ان کا انتباہ کہ “اگر مسلم ممالک متحد نہ ہوئے تو سب کی باری آئے گی” صرف ایک سفارتی بیان نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا سامنا کرنے سے مسلم ممالک گریز کرتے رہے ہیں ۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان تازہ حملوں کا سلسلہ نہ صرف خطے میں بڑی جنگ کی پیش گوئی کر رہا ہے بلکہ مسلم دنیا کی بے بسی اور مغرب پر انحصار کی قلعی بھی کھول رہا ہے۔ حال ہی میں اسرائیل کی جانب سے ایرانی جوہری و عسکری تنصیبات پر حملے کیے گئے، جن میں کئی اہم ایرانی کمانڈر، سائنس دان اور تنصیبات نشانہ بنیں۔ ایران نے اس کا بھرپور جواب دیتے ہوئے اسرائیل پر 200 سے زائد میزائل اور ڈرونز داغے، جن میں سے کچھ نے اسرائیلی علاقوں میں تباہی مچائی، جانی نقصان ہوا، اور اسرائیلی شہری خوف و ہراس میں مبتلا ہوئے۔ایران کے لئے اسرائیل تک اپنے ڈرون اور میزائل پہنچانا ایک دشوار کام تھا لیکن کئی مسلم ممالک کی حدود سے گزر کر یہ ہتھیار اسرائیلی علاقوں مین طے شدہ اہداف تک پہنچے۔اسرائیل کا تین پتوں پر مشتمل ائیر ڈیفنس سستم ڈرون و میزائلوں کو روک لیتا ہے۔ سینکڑون میزائلوں میں سے جو چند اسرائیل میں گرے ان سے عمارات کی تباہی تو ہوئی لیکن اعلی سول و ملٹری قیادت محفوظ رہی۔یوں ایران کا بدلہ تاحال پورا نہیں ہو سکا۔دونوں طرف کے حملوں میں درجنوں ہلاکتیں ہوئیں۔ اقوام متحدہ کی رسمی تشویش کے سوا، عالمی ادارے اس ساری صورتحال میںخاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں جنگوں کو روکنے کے لئے جو نطام بنایا گیا تھا وہ اسرائیل کی جانب سے ہٹ دھرمی و بین الاقوامی ضابطوں کی مسلسل خلاف ورزی کے باعث منہدم اور بے اعتبار ہو چکا ہے۔اس نظام کی ساکھ بحال کرنے کے لئے لازم ہے کہ اسرائیل پر فلسطینیوں کی نسل کشی، اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی،جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی پامالی کے جرم میں شفاف کارروائی کی جائے۔مسلم ممالک کو ان مقدمات کا مدعی بننا چاہئیے۔اسرائیل کا قیام اور پھر اس کی جغرافیائی حدود میں توسیع کو حوصلہ بخشنے والے کئی اسباب ہیں۔ اسرائیل کو ہر ممکن سفارتی، مالی اور عسکری امداد امریکا سے ملتی ہے۔ حالیہ ایرانی حملوں کے دوران اور اس سے پہلے غزہ کے نہتے شہریوں پر حملوں کے لئے بھی امریکا نے اسرائیلی میزائل دفاعی نظام کو فعال رکھنے میں مدد دی۔ اسرائیلی جارحیت کو “دفاع” اور ایرانی جواب کو “دہشت گردی” قرار دینا مغربی میڈیا کامعمول بن چکا ہے، جس سے عالمی رائے عامہ اسرائیل کے حق میں جھکتی ہے۔بلاشبہ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے اسرائیل اور مسلم ممالک کا کوئی تقابل نہیں لیکن خطے میں بکھری مسلم طاقت اسرائیل کی قوت بن رہی ہے۔ مسلم ممالک آپس میں مسلکی و سیاسی تنازعات میں الجھیہیں، ان کے تعلقات ایک دوسرے سے کشیدہ اور بیرونی طاقتوں پر انحصار زیادہ ہے۔ اس کمزوری سے اسرائیل بخوبی واقف ہے۔عالمی قوانین اور اداروں کی بے حسی نے اسرائیل کو منہ زور بنا دیا ہے۔اقوام متحدہ، آئی اے ای اے، انسانی حقوق کے ادارے ،سب اس تنازع میں بے اثر نظر آتے ہیں۔ عالمی قوانین کے مطابق کسی بھی ملک پر حملہ بین الاقوامی جرم ہے، مگر جب اسرائیل ایران، شام، لبنان یا فلسطین پر بمباری کرتا ہے تو ادارے خاموش رہتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ امریکا اور مغربی بلاک کی سیاسی گرفت ہے، جو اسرائیل کے مفادات کو عالمی قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ سعودی عرب، قطر، بحرین، ترکی، اردن، متحدہ عرب امارات اور حتی کہ پاکستان جیسے ممالک میں امریکا کے فوجی اڈے ہیں یا رہے ہیں ۔مسلم ممالک میں امریکہ کا انٹیلی جنس نیٹ ورک موجود ہیں۔ اس موجودگی کی وجہ سے کوئی بھی مسلم ملک اسرائیل کے خلاف کھل کر نہیں بول سکتا۔امریکی اقتصادی، عسکری اور سفارتی دباو ان ممالک کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف موثر پالیسی نہ بنائیں۔امریکی بلاک فلسطینی یاایرانی موقف کی حمایت کو “بغاوت” تصور کرتا ہے۔ان حالات میںمسلم ممالک کے پاس کیا راستہ بچتا ہے؟ مسلم دنیا کو اپنے دفاعی انحصار کو مغرب سے ہٹا کر مقامی اور علاقائی تعاون کی طرف لانا ہوگا۔ ترکی، پاکستان، ایران، ملائیشیا جیسے ممالک مشترکہ دفاعی تحقیق و ترقی میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ او آئی سی، ڈی ایٹ اور اسلامی ترقیاتی بینک جیسے ادارے محض رسمی پلیٹ فارم نہ رہیں بلکہ معاشی و مالی پابندیوں، امداد اور تجارتی بائیکاٹ کی حقیقی پالیسی اپنائیں۔ایران اور اسرائیل کے اس تنازعے پر فوری اسلامی وزرائے خارجہ کا اجلاس بلایا جائے، اور اقوام متحدہ میں ایک متحدہ قرارداد پیش کی جائے۔ مغرب کی میڈیا اجارہ داری کو توڑنے کے لیے الجزیرہ، پی ٹی وی ورلڈ، ٹی آر ٹی ورلڈ جیسے چینلز کو زیادہ بااثر بنایا جائے، تاکہ مسلم موقف عالمی سطح پر پہنچ سکے۔ مسلم دنیا کے عوام کو اپنے حکمرانوں سے فلسطینی، ایرانی اور لبنانی عوام کی حمایت کا مطالبہ کرنا ہوگا۔ یہ دباو تبدیلی کا آغاز بن سکتا ہے۔خواجہ آصف کا پیغام صرف پاکستان کے لیے نہیں، پوری مسلم دنیا کے لیے ایک بیداری کی صدا ہے۔ آج اگر ایران نشانے پر ہے تو کل پاکستان، سعودی عرب یا کوئی اور ملک ہو سکتا ہے۔ دشمن نے وار کرنے میں کوئی اخلاقی حد نہیں چھوڑی، اور مسلم ممالک اب بھی اتحاد کے خواب میں گم ہیں۔مسلم دنیا کو چاہیے کہ وہ امریکا کے سائے سے نکلے، اسرائیلی مظالم کے خلاف متحد ہو، اور اپنے دفاع کو محض فریاد تک محدود نہ رکھے۔ بصورت دیگر، آنے والے کل میں صرف نوحے اور ملبے بچیں گے۔
٭٭٭















