کس چالبازی سے نتن یاہو نے امریکی صدر ٹرمپ کو اپنی گرفت میں لیا ہے یا دوسرے معنوں میں امریکہ نے نیتن یاہو کی خواہش کا احترام کیا ہے۔ وہ قابل ذکر ہے اس کے کئی اسباب ہیں، امریکہ اپنی پالیسی دُہرا رہا ہے۔1991میں فادر بش نے عراق پر چڑھائی کردی جب عراق نے کویت کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا اور پھر صاحبزادے بش نے20مارچ2003کے دن زبردست بمباری کرکے عراق کو تتر بتر کردیا حالانکہ اسرائیل پہلے ہی میزائل مار کر عراق کی نیوکلیئر تنصیب کو تباہ کر چکا تھا اور عراق خاموش ہوچکا تھا۔ اسرائیل کو کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا اور آج بھی بالکل اسی طرح ہو رہا ہے اسرائیل نے دعویٰ کیا تھا کہ ایران دو ماہ کے اندر اندر نیوکلیئر تنصیب مکمل کر لے گا اور پوری دنیا کو تباہ کردے گا جب کہ پورا یورپ جانتا ہے کہ ایران اس قابل نہیں تو پھر یہ تاریخ دُہرانے کے پیچھے کیا ہے۔ ایک تو وسائل پر قبضہ کرکے اپنی من مانی کرنا اور ساتھ ہی گریٹر اسرائیل کی انتہا کہ شام، لبنان، لیبیا، عراق تو انکے ہاتھ میں ہیں صرف ایران باقی بچا ہے راتوں رات جس کا علم ایران کو نہیں تھا ایران کی تین جگہوں پر وزنی بم گرا کر بقول صدر ٹرمپ کے تباہ کردیا ہے۔ جس پر اسرائیل کے نتن یاہو نے خوشی کا اظہار یوں کیا ہے۔ ”اسرائیلی عوام صدر ٹرمپ کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ایران کی تینوں نیوکلیئر جگہوں کو ختم کردیا۔” دوسری جانب پڑوسی ملک، پریشان ہیں ترکی نے کہا ہے کہ ”ہم نہایت فکر مند ہیں مقصد یہ ہے کہ ایران اس کا جواب دے گا تو کیا ہوگا۔ عمان کا کہنا ہے کہ اس حملے سے علاقہ میں خطرات بڑھ گئے ہیں امریکہ نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے یہ بات سب کو معلوم ہے اور امریکہ کو اس سے انکار نہیں جب کہ اسرائیل نے اتوار کا انتظار کئے بغیر ایران پر میزائل پھینک مارے ایران نے جوابی کارروائی کی ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ امریکہ اسرائیل کو شبیہ کرتا خود انکے ساتھ مل گیا اب تک کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ امریکہ نے دنیا کو بتا دیا کہ ”جو ہماری مرضی” بالکل ایک ضدی بچے کی مانند جو دن میں کئی بار اپنی پسند یا ناپسند کی ضد کرتا ہے۔ یہاں معاملہ مختلف ہے کہ باپ بھی خود اور بچہ بھی خود ہے عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں وہ صدر ٹرمپ کو اپنی مانگ اور ضرورت کے لئے لائے تھے لیکن پانچ ماہ گزرنے کے بعد ایسا نہیں ہوا ہے۔
اس شرارت میں ایک دوسرا بچہ بھی شریک ہے پچھلی دفعہ کی مانند وہ برطانیہ کا وزیراعظم اسٹارمر ہے اس کا کہنا ہے امریکہ کے اس ایکشن سے ہونے والے خطرات ختم ہوچکے ہیں، صدر ٹرمپ کا کہنا ہے اب ایران کو صلح مندی کی طرف آنا ہے جنگ بندی کو ختم کرنا ہے۔ سعودی عرب کا بیان ہے کہ اب بین الاقوامی کو دوگنی کوشش سے سیاسی حل تلاش کرنا ہے قطر بھی کہہ رہا ہے کہ ملٹری آپریشن بند کیا جائے اور گفتگو کے ذریعہ حل تلاش کیا جائے لیکن اب کیا رہ گیا ہے جس پر گفتگو کی جائے کہا یہ جارہا ہے کہ سارے انتظام کر لئے گئے ہیں رجیم بدلنے کے اور ایران کے رضا شاہ پہلوی کے صاحبزادے تیار ہیں ایران کو سنبھالنے کے لئے ایسا ایران کی تاریخ میں دوسری بار ہوگا۔ شاہ ایرانی کو بھی1953میں جب صدر ٹرومین کوریا میں مصروف تھے۔ اس وقت کے وزیراعظم مصدق کو ہٹایا گیا تھا۔ صدر آئزن ہاور آچکے تھے اور برطانیہ نے ان پر زور ڈالا تھا کہ مصدق کو چلتا کیا جائے۔ حکومتیں بدلنا، گرانا مداخلت کرنا لگتا ہے صدیوں سے بڑی طاقتوں کا کھیل چلا آرہا ہے پچاس سال سے زیادہ عرصہ یہاں رہنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ امریکہ بہادر امریکہ سے باہر بے حد طاقتور ہے لیکن اندر وہ ایسے کمزور کہ کارپوریشن صدر کی کسی بات کو ہونے نہیں دیتیں آپ کسی بھی نظام کو جو پرائیویٹ ہے ترتیب سے من مانی ہو رہی ہے پہلے امریکہ کا بوگس ہیلتھ کیئر سسٹم، دوسرے فارمایسٹکل کارپوریشن، تیسرے نمبر پر آئل کمپنیز کو من مانی کرتے دیکھ کر چھوٹی چھوٹی کارپوریشن کے پر نکل آئے ہیں۔ پورا نظام ایک مذاق ہے مثال دیتے چلیں۔
جہاں ہم رہتے ہیں دو دو بلاک سے تین پانی فراہم کرنے والی کارپوریشن ہیں۔ دو کارپوریشن ہر تین ماہ بعد بلنگ کرتی ہیں اور ایک جہاں ہم ہیں ہر ماہ بل کرتی ہے جس کا بل باقی دو کمپنیوں کے مقابلے میں دوگنا ہوتا ہے۔ لوکل سیاست دانوں کی اجازت سے اور آپ شکایت کریں تو کوئی سنوائی نہیں۔ اسی طرح بجلی اور گیس فراہم کرنے والے بھی سیاست دانوں سے مل کر من مانی کرتے ہیں۔ چاہے وہ ڈیموکریٹ ہوں یاری پبلکن اس کی تفصیل ہے جو فراڈ پر مبنی ہے لہذا ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ بات ہو رہی تھی عوام کے نام پر سیاست دان دنیا بھر میں من مانی کر رہے ہیں پاکستان کی صورتحال دیکھ لیں جہاں عاصم منیر سب پر بھاری ہے اس لئے کہ امریکہ کو اپنی من مانی کے لئے ایسے غلاموں کی ضرورت ہے جو جی حضور کریں۔ دنیا کا جو بھی نظام تھا بہت پہلے جیسےCAPITALISM سرمایہ داری کہتے ہیں سوائے ایک دو ملک چھوڑ کر قائم تھا۔ اس کے کچھ قانون تھے جو اچھے تھے لیکن1980میں امریکی سیاست دانوں نے انگڑائی لی اور نظام کو تھاب کی طرح نوچ ڈالا۔ٹہریئے اس سے بھی برا وقت آرہا ہےA-Iکے تحت جہاں آپ کو سننے والا اور جواب دینے والا انسان نہیں ہوگا شروع ہوچکا ہے۔ فراڈ اور جھوٹ پر مبنی کاروبار چلے گا اور چل رہا ہے اور سیاست دان منہ چھپائے۔ اپنی اپنی شیطانیاں کر رہے ہونگے کر رہے ہیں۔ اور اب امیگریشن کے قانون میں تبدیلی آرہی ہے اور خود امریکی انتظامیہ اس قول کے خلاف ہےiF IT AiNIT BROKE DO NOT F IXIT” (اگر یہ ٹوٹے نہیں اسے فکس مت کرو۔
لکین ہر شعبہ، ہر کارپوریشن، ہر بزنس میں یہ توڑ پھوڑ جاری ہے اور جاری رہے گی جس کا خمیازہ امریکی سب سے زیادہ بھگتیں گے اور بھگت رہے ہیں یہ بات صرف ایک چیز پر نہیں ہر چیز پر ہے اور یہ سب کچھ عوام کی سہولت کے لئے اور قیمتوں پر قابو پانے کے لئے ہو رہا ہے لیکن امریکہ میں سب سے بڑا فراڈ یہی ہے کہ عوام کو ان کا نام لے کر بیوقوف بنایا جارہا ہو یہ بات سیاست سے شروع ہوئی تھی کہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے عوام کی سہولت کے لئے کیا یقین کرسکتا ہے کوئی کہ دنیا نے منجھے ہوئے فراڈی لوگوں کو جمع کرکے حکومت بنائی جائے لیکن اس پر قبضہ جنرلز کا ہو جو امریکہ کی کال پر امریکہ آکر لنچ کھائیں صدر کے ساتھ۔
٭٭٭٭٭














