شاہین کی پرواز سے لرزہ ہے فضا میں
ہمرنگِ زمیں دام میں آتا نہیں شاہیں
پیتا ہے لہو طائرِ زندہ کا ہمیشہ
کرگس کی طرح مردے تو کھاتا نہیں شاہیں
انسانوں کو پابندِ سلاسل نہیں کرتے
خوشبو کو تو زنجیر میں جکڑا نہیں جاتا
ماہی کو پکڑتے ہو سرِ ساحلِ صحرا؟
ماہی کو کبھی ریت پہ پکڑا نہیں جاتا
ماں نے تو آزاد جنے پھول سے بچے
کیوں قیدِ قفس میں اِنہیں شاہوں نے کیا ہے؟
آزادی تو انسان کے ماتھے کا ہے جھومر
اِن شاہوں نے آزادی کا کیوں خون پیا ہے؟
شاخِ گلشن کو جلاتے ہیں خزاں کے شعلے
غنچے سب بادِ بہاری میں نکھر جاتے ہیں
جب غلامی کی فضاں میں گھرا ہوگلشن
خشک پتوں کی طرح لوگ بکھر جاتے ہیں
اگست
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ
کسی صاحب نے قلم قافل گل میں لکھا ہے کہ ارم ناز نے ایک کالم میں ڈاکٹر مقصود جعفری کی شاعری کی بہت تعریف کی ہے جس پر اِن صاحب کو اعتراض ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر مقصود جعفری کی ایک تازہ غزل کے ہر شعر پر تنقید کی ہے۔ اسی طرح ان کے چار تازہ قطعات پر بھی طنز کے تیر برسائے ہیں۔ یہ تحریر پڑھ کے مجھے احساس ہوا کہ محترم نے خبثِ باطن سے کام لیا ہے۔ اِس تحریر سے ان کا شاعری کے اسرار و رموز سے لاعلمی ظاہر ہوتی ہے۔ کسی بڑے شاعر یا دانشور پر بے جا تنقید کرنے سے کوئی بڑا نہیں بن جاتا۔ ڈاکٹر مقصود جعفری عالمی سطح کی مستند اور معتبر شخصیت ہیں۔ آپ شاعرِ ہفت زبان ہیں اور آپ کو شاعرِ انسانیت کہا جاتا ہے۔ جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، احمد فراز، ضمیر جعفری، افتخار عارف، فرزندِ علامہ اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال اور محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر نے جس کی شاعری پر توصیفی دیباچے اور تعریفی آرا لکھی ہوں، اس کی شاعری پر بلا جواز حرفِ تنقید لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ آپ کی فارسی شاعری پر ایران اور تاجکستان کی معروف علمی اور ادبی شخصیات نے توصیفی آرا لکھی ہیں۔ آپ کی انگریزی شاعری پر امریکہ، انگلستان اور کینیڈا کے شاعروں اور نقادوں نے لکھا ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان اور دنیا بھر سے نامور شاعروں اور ادبی نقادوں نے ان کی شاعری اور علمی مقام پر جو مقالے لکھے ہیں یا آرا دی ہیں اگر ان کے نام لکھوں تو ایک کتاب بن جائے۔ اس وقت تک آپ پر چار ایم فِل اور دو پی ایچ ڈی ہو چکی ہیں اور مزید ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے مقالے مختلف یونیوورسٹیوں میں لکھے جا رہے ہیں۔ تا حال آپ کی انگریزی، فارسی اور اردو کی شاعری، فلسفہ اور سیاسات پر چونتیس کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ایسے نابغ روزگار کی شاعری پر تنقید کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہیے۔ عرفی شیرازی نے کہا تھا!
عرفی تو میندیش ز غوغائے رقیباں
آوازِ سگاں کم نکند رزقِ گدا را ارم نا
٭٭٭














