”بے حس حکمرا ن ”

0
74
شبیر گُل

بے حس حکمران مملکت خدادا پر بے شرم ظالموں کا ٹولہ مسلط ہے جن کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن ہے۔ ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز گزشتہ دنوں بمعہ لا لشکر جاپان کے دورے پر تھیں ۔ واللہ عالم دورے کے مقاصد کیا تھے۔ دورہ پر تقریبا بیس کڑوڑ خرچ آئے۔اٹھارہ کروڑ ایڈوانس میں جاری کئے گئے۔ اس کے علاوہ مہنگے ہوٹلز،لگثری گاڑیوں کے کانوائے،دورہ کی لابنگ اور اشتہارات تھے۔ قرضوں میں جکڑا ملک ایسے اخراجات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پنجاب اور پورا پاکستان سیلاب کی زد میں ہے۔ تقریبا دو ہزار ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ کراچی سمیت کئی علاقوں کا انفراسٹریکچر تباہ ہوچکا۔ سینکڑوں خاندان پیاروں کو کھو چکے ہیں۔ مہنگائی اور بلوں کی بھرمار ،اوپر سے طوفانی بارشوں نے قہر خداوندی ڈھا دیا ہے۔ خوف خدا سے عاری حکمران اپنی عیاشیوں،موج مستیوں اور پروٹوکول سے باہر نہیں آرہے۔عوام پی پی پی اور ایم کیو ایم کو کراچی اور سندھ میں گالیاں دے رہی ہے۔ پی ٹی آئی کو خیبر پختونخواہ میں اور ن لیگ کو پنجاب میں گالیاں پڑ رہی ہیں۔ مگر بے حس اشرافیہ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ تیس سال سے ایم کیو ایم پیپلز پارٹی اور ن لیگ سندھ، خیبرپختونخواہ ،پنجاب ، بلوچستان اور کشمیر کے اقتدار میں ہیں۔ پی ٹی آئی چودہ سال سے خیبرپختونخواہ میں براجمان ہے۔ تیس سال پہلے جو حالات تھے آج بھی ویسے ہی ہیں۔ حالات بہتری کی بجائے تنزلی کی طرف جارہے ہیں۔ ان برائیوں کے پشتیبان کرپٹ جرنیل اور ججز ہیں جنہوں نے ان مجرموں کو قوم پر مسلط کیا ہے۔ دریاں ،نہروں، ندی نالوں پر ناجائز تجاوزات ہیں۔ گلوبل وارمنگ کو سیریس نہیں لیا جارہا۔ 2010 میں سیلاب سے تباہی ہوئی ۔ 2022 میں تباہی ہوئی۔اور اب 2025ء کی تباہی اور اموات لمحہ فکریہ ہیں۔ پہاڑوں کی کٹنگ ،درختوں کی کٹائی نے زیادہ تباہی کی ہیں۔ دریائوں کے رخ کو تبدیل کرنا۔ان پر بستیوں کی تعمیر جیسے ناجائز کام قدرت سے چھیڑ چھاڑ ہے۔ ٹمبر مافیا، پتھر مافیا،لینڈ مافیاز مختلف پارٹیوں کی شکل میں اسمبلیوں،پارلیمنٹ اور سینٹ میں بیٹھے ہیں۔ سڑکوں ،پلوں کی کنسٹرکشن اور تعمیراتی منصوبوں میں 70 فیصد کرپشن ہے۔ اسلئے سڑکیں اور پل بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر ان کی روک تھام نہ کی گئی تو آئندہ اس سے بھی بڑی نقصانات کا اندیشہ ہے۔ عوام الناس کو ٹائون اور قصبہ کی سطح پر سیلاب سے بچائو کے طریقے کار اورEquipmentsکی اور پیشگی اطالاعات کے آلات کی ہر ضلعی ہیڈ کواٹر پر ضرورت ہے۔ تاکہ انسانی جانوں کے ضیاع کو کم کیا جاسکے۔ پاکستان میں نئے جنگلات اور کھربوں درخت لگانے کی ضرورت ہے۔ لینڈ مافیا کولگام کی ضرورت ہے۔ نئی بستیوں اور بڑے بڑے گھروں کی بجائے چار پانچ منزلہ گھر بنائے جائیں ۔آبادیاں مزید پھیلنے نہ پائیں۔ ہریالی بڑھائی جائے غیر آباد اراضی کو قابل کاشت بنایا جائے۔ ملک اور عوام کے لئے فیوچر پلاننگ کی جائے۔ تاکہ اناج کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔ یہ کیسا زرعی ملک ہے جہاں اناج کی کمی ہے۔ گندم ،چاول، چینی اور دوسری فصلیں ایکسپورٹ ہوجاتی ہیں۔ اور ہم دوسرے ممالک سے امپورٹ کرتے ہیں۔ کوئی میکنزم نہیں کہ غیر اناج کو قانونی ایکسپورٹ کیا جائے۔ غیر قانونی تعمیرات ،غیر قانونی پلازے، غیرقانونی بستیاں اور غیر قانونی شاپنگ مالز پر پابندی ہونی چاہئے۔بلڈنگ کوڈ کومتعارف کرایاجائے۔بے ہنگم آبادیوں کے پھیلا کو بھی روکا جائے تاکہ اس قسم کے حادثات رونما نہ ہوں ۔جنہوں نے ناجائز درختوں کی کٹائی کی ہے ان پر ہاتھ ڈالا جائے۔ ٹمبر مافیا خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو ان پر دہشتگردی کے مقدمات بنائے جائیں ۔یہ انسانی جانوں کے قاتل ہیں۔ معاشی دہشتگرد ہیں ۔ یہاں امیر آدمی کا دریا پر ہوٹل بن گیا۔ غریب کی بستی بہہ گئی۔جتنا بھی بڑا کیوں نہ ہو۔ قانون کی علمداری ہر ایک کے لئے یکساں ہونی چاہئے۔ اداروں میں بیٹھے لوگ غیر تربیت یافتہ اور کرپٹ ہیں ۔انکی بد انتظامی ، لوٹ مار روکنے ۔مضبوط اور خوشخال پاکستان کے لئے نئے صوبے ناگزیر ہیں ۔ دہشت گردی روکنے، عوام کی سیکورٹی اور ڈلیور کے لئے پنجاب اور بلوچستان میں تین تین ۔ خیبر پختونخواہ اور سندھ میں دو دو نئے صوبے بننے چاہئیں۔ تاکہ انتظامی معاملات اور اختیارات بہتر ہو سکیں۔ نئی ہائیکورٹس کے قیام سے انصاف میسر ہوگا۔ سیلاب کی تباہ کاریاں روکنے کے لئے کالا باغ ڈیم اور اس جیسے کئی نئے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے۔ تاکہ عوام الناس کے لئے آسانیاں پیدا ہو سکیں ۔لسانیت بھی سر نہیں اٹھائے گی۔ سرداروں ،خوانین ،وڈیروں کا نظام پر کنٹرول ختم ہوگا۔ آج ملک میں ہر طرف سیاسی گند اور بھنڈ نظر آتے ہیں۔ ایم کیو ایم کی قیادت ایک گاڑی پر بیٹھ کر تصویریں بنا رہے ہیں۔ کراچی کے جعلی مئیر مرتضی وہاب شاہراہوں سے پانی اترنے کا انتظار کرتے رہے۔گورنر ایک گاڑی کو دھکا لگانے کی تصویریں پوسٹ کرتے رہے۔ گنڈاپور اور اسکی ٹیم کو بونئیر کے لوگوں نے بگادیا۔ یہ سیاسی بھنڈ عوامی مجرم ہیں۔ جنہوں نے اپنے اپنے دور اقتدار میں اور اپنے علاقوں میں کچھ ڈلیور نہیں کیا۔ن لیگ ، ایم کیو ایم ، پیپلز پارٹی ،جے یو آئی تحریک لبیک اور پی ٹی آئی کے کارندے سیلاب زدگان کی مدد کو کہیں نظر نہیں آئے ۔ جماعت اسلامی کی (الخدمت فانڈیشن) پورے پاکستان کے سیلاب زدگان کی مدد کے لئے ہر شہر اور ٹان میں نظر آرہے ہیں۔ کرپٹ لیڈر مشکل کی گھڑی میں عوام کے درمیان نظر نہیں آئے۔ کسی دانشور نے مملکت خداداد کی تصویر کشی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ۔خزانہ خالی ہاتھوں میں ۔ انصاف کمزور ہاتھوں میں۔عوام چوروں کے ہاتھوں میں ۔ اور دین جعلی عاشقوں کے ہاتھوں میں ۔ بلکہ میرا ماننا ہے کہ پاکستان کی معیشت انتہائی مضبوط ہاتھوں میں ۔ان ہاتھوں میں جو ملک لوٹیں،منی لانڈرنگ کریں۔ بیرون ملک جائدادیں بنائیں۔ یا خزانہ خالی کریں۔ ان مضبوط ہاتھوں پر کوئی گرفت نہیں کرتا۔یہی لوگ بار بار اقتدار میں آتے ہیں۔ انہوں نے باریاں لگا رکھی ہیں۔ سول بیوروکریسی ہو یا آرمی اسٹبلشمنٹ سبھی اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں۔ شاید یہ سب مال ومتاع قبر میں لیجانے کی آس پر بیٹھے ہیں۔ لیکن کفن کو تو کوئی جیب نہیں ہوتی۔ وہ اندھیری کوٹھری ہے جہاں اعمال ہی کام آئیں گے۔
قارئین! قائداعظم کے پاکستان میں جمہوریت مغنیوں میں گھری ہے۔ ملک پر مسلط سیاسی گماشتے بیوروکریٹس ، ججز اور جرنیل بے بے حسی کی تمام حدوں کو پار کرچکے ہیں،انہیں سیلاب کی تباہ کاریاں ۔ سینکڑوں اموات پر کوئی ندامت نہیں۔ ہو بھی کیسے ۔انہیں لانے والے شرم و حیاسے آری ییں۔پورا کراچی ڈوب گیا انتظامیہ کہیں نظر نہیں آئی۔ پورا خیبر پختونخواہ ڈوب گیا ۔پی ٹی آئی کی لیڈرشپ نظر نہیں آئی ۔ احتجاج کے لئے یہ نظر آتے ہیں۔ سیاسی لیڈر ،بیوروکریسی اور ادراروں میں بیٹھے ہرکارے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ سرکاری گاڑیاں، پٹرول ، بجلی اور جہاں بس چلتا ہے ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ منٹو لکھتے ہیں کہ میں شدید گرمی کے مہینے میں ھیرا منڈی چلا گیا.جس گھر میں گیا تھا وہاں کی نائیکہ دو عدد ونڈو ائیر کنڈیشنڈ چلا کر اپنے اوپر رضائی اوڑھ کر سردی سے کپکپا رہی تھی،میں نے کہا کہ میڈم دو اے سی چل رہے ہیں آپ کو سردی بھی لگ رہی ہے آپ ایک بند کر دیں تا کہ آپ کا بل بھی کم آئے گا،تو وہ مسکرا کر بولی کہ، “اساں کیہڑا اے بل اپنی جیب وچوں دینا اے”. منٹو کہتے کہ کافی سال گزر گئے اور مجھے گوجرانوالہ اسسٹنٹ کمشنر کے پاس کسی کام کے لیے جانا پڑ گیا. شدید گرمی کا موسم تھا، صاحب جی شدید گرمی میں بھی پینٹ کوٹ پہنے بیٹھے ہوئے تھے اور دو ونڈو ائیر کنڈیشنر فل آب تاب کے ساتھ چل رہے تھے اور صاحب کو سردی بھی محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے کہا کہ جناب ایک اے سی بند کر دیں تا کہ بل کم آئے گا تو صاب بہادر بولے، ”اساں کیہڑا اے بل اپنی جیب وچوں دینا اے” منٹو کہتے ہیں کہ میرا ذہن فورا اسی محلہ کی نائیکہ کی طرف چلا گیا کہ دونوں کے مکالمے اور سوچ ایک ہی جیسے تھی، تب میں پورا معاملہ سمجھ گیا۔ یعنی اس ملک کے تمام ادارے ایسی ہی نائیکہ جیسی سوچ رکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں۔اگر تعلیم آپکا کردار اور سوچ تبدیل نہ کرسکے تو آپ اس موچی سے بھی گئے گزرے ہیں جو اپنے ٹوٹے جوتے بھی ترتیب سے رکھتا ہے۔ مرزا ابو الحسن اصفہانی لکھتے ہیں کہ “قائدِ اعظم محمد علی جناح کی یہ عادت تھی کہ کمرے سے نکلتے وقت بجلی کے سارے بٹن بند کر دیا کرتے تھے۔ اپنے گھر میں ہوں، میرے یہاں ہوں یا کسی میزبان کے گھر میں، ہر جگہ ان کا یہی معمول ہوتا تھا ۔اور جب میں ان سے پوچھتا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟؟؟ تو وہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں ایک وولٹ بھی ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔میں ان سے آخری بار 31 اگست 1947 کو گورنر جنرل ہاس میں ملا تھا۔ ہم کمرے سے نکلے تو وہ مجھے سیڑھیوں تک چھوڑنے آئے اور کمرے سے نکلتے وقت انہوں نے حسبِ عادت خود ہی تمام سوئچ آف کئے۔میں نے ان سے کہا جناب آپ گورنر جنرل ہیں اور یہ سرکاری قیام گاہ ہے۔اس میں روشنیاں جلتی رہنی چاہئیں۔قائد نے جواب دیا کہ یہ سرکاری قیام گاہ ہے اس لئے تو میں اور بھی محتاط ہوں۔ یہ میرا اور تمھارا پیسہ نہیں ہے۔ یہ سرکاری خزانے کا پیسہ ہے اور میں اس پیسے کا امین ہوں۔اپنے گھر میں تو مجھے اس بات کا پورا اختیار تھا کہ اپنے گھر کی بتیاں ساری رات جلائے رکھوں لیکن یہاں میری حیثیت مختلف ہے۔تم زینے سے اتر جا تو یہ بٹن بھی بند کر دوں گا” یہ قائد تھے جن کے ہاتھوں ملک وجود میں آیا۔ لیکن ملک آج جنکے ہاتھوں میں ہے۔ انکی سفاکی اور درندگی نے کرپشن کا اودھم مچا رکھا ہے۔ نہ خوف خدا اور نہ اخلاقی کریکڑ۔ یہ انتہائی بد بودار اور غلیظ لوگ ہیں۔ جن کے سامنے لوگ بھوک سے تڑپتے ،پانی سے بلکتے اور بھاری بھرکم بلوں کی چکی میں پستے ہیں۔ یہ سیاسی لٹیرے شہنشاہ معظم بنے پھرتے ہیں۔ بڑے بڑے پروٹوکول کے ساتھ گھومتے ہیں ،عوام کو کمی کمین سمجھتے ہیں۔ ملکہ برطانیہ بڑھاپے میں اپنا سامان خود اٹھاتی تھیں ۔ ہمارے ملک کا (اے سی ) اپنی چھتڑی خود نہیں پکڑ سکتا۔ یہ شاہانہ انداز ،انکی گردنوں میں سریا، فرعونی لہجے ، غرور، تکبر اور اکڑ سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ ان کافروں سے بدتر ہیں جو کلمہ گو نہیں ہیں ۔ مگر عوام کو انصاف فراہم کرتے ہیں۔اپنے آفس میں آپکو سر کہہ کا بلاتے ہیں ،عزت و تکریم سے پیش آتے ہیں۔ ان ممالک میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاں سائل کے لئے کرسی نہ ہو۔ ہمارے ہاں افسر شاہی ، لیڈروں اور ابوجہل میں کوئی فرق نہیں۔ کملہ گو ہیں لیکن بد تہذیب اور درندے۔ کلمہ انسان کو تہذیب،اخلاق اور ایمانداری سکھاتا ہے۔ اللہ کا خوف سکھاتا ہے۔ مخلوق خدا سے محبت سکھاتا ہے۔ عجز وانکساری سکھاتا ہے۔ پتھروں کا برسنا، پہاڑوں کا پھٹنا،بادلوں کا پھٹنا اللہ کا غضب ہی تو ہے۔ ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔ اب تو پانی سروں سے بھی اونچا ہوا۔ ۔ سرتو سر ہیں اب گھروں سے بھی اونچا ہوا۔ اللہ ہمارے ملک کی خفاظت فرمائے۔ ان مجرموں ،قومی درندوں اور مخلوق خدا کے دشمنوں سے چھٹکارا نصیب فرمائے ۔ کیونکہ عبادت خدا کی اطاعت مصطفے کی خدمت مخلوق خدا کی ۔ ہر مسلمان کا نصب العین ہے۔ رسول اللہ کا فرمان ہے کہ سلام اور طعام کو عام کرو۔ خلق خدا سے خسن سلوک کرو۔ اے مالک وخالق ۔اے رحیم و کریم ۔اے اے رب ذوالجلال والاکرام ۔ ہمارے اعمال و ہمارے گناہوں کو معاف فرما، ہمارے کردار و افکار میں بہتری فرما۔ ہمارے حال پر رحم فرما۔ ہر قسم کی آزمائشوں سے محفوظ فرما۔اپنا خوف عطا فرما۔ (آمین )
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here