غزہ کی بھوک…لمحہ فکریہ!!!

0
111
شمیم سیّد
شمیم سیّد

اقوامِ متحدہ اور عالمی تنظیمیں مسلسل انتباہ کر رہی ہیں کہ محصور فلسطینیوں تک خوراک اور ادویات پہنچنے کے تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ اسرائیلی صحافی اور سماجی کارکن اورلی نوی کے مطابق اسرائیلی ٹی وی پر غزہ کی بھوک اور موت کی خبریں دکھائی ہی نہیں جاتیں اگر کچھ دکھایا بھی جاتا ہے تو صرف اس وقت جب اسرائیلی قیدیوں کو بھوکا دکھانے کی فوٹیج نشر ہو۔ یوں عوام کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ قحط صرف ان چند قیدیوں تک محدود ہے، عام فلسطینیوں کی حالت بالکل نظرانداز کر دی جاتی ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے اسرائیلی میڈیا کا بیانیہ یہ رہا ہے کہ غزہ میں بھوک کوئی حقیقت نہیں، یہ سب حماس کا ڈرامہ ہے چنانچہ جب بین الاقوامی اخبارات اسرائیل کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہیں اور بچوں کی بھوک سے موت کی تصاویر شائع کرتے ہیں تو اسرائیل کے اندر اس پر کان دھرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔اسرائیلی سوشیالوجسٹ یہودا شِنہو کے مطابق ریاست نے جنگ کو بیان کرنے کے لیے زبان کو مسخ کر دیا ہے۔ جہاں قتل ہے، وہاں خاتمہ کہا جاتا ہے، جہاں قید و بند ہے وہاں انسانی شہر کہا جاتا ہے، اور ہر فوجی آپریشن کو بائبل کے نام دے کر وقت ناپنے کا پیمانہ بنا دیا گیا ہے۔ اس نئے لغت نے عوام کی سوچ کو یوں بدلا کہ اصل ظلم پسِ منظر میں چلا گیا اور ایک تخیلاتی دنیا ان کے سامنے آ گئی۔ دنیا کی آنکھوں کے سامنے غزہ بھوک اور قحط کا شکار ہے۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے معصوم بچے، فاقہ زدہ عورتیں اور نحیف بوڑھے اس حقیقت کے زندہ ثبوت ہیں کہ بھوک بھی ایک ہتھیار ہے، اور اسرائیل اس ہتھیار کو کھلے عام استعمال کر رہا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ اب تک دو سو کے قریب افراد، جن میں ننھے بچے بھی شامل ہیں، فاقوں سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔اس المناک صورت حال کے برعکس اسرائیل کے اندر ایک عجیب اور چونکا دینے والا رویہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ کے ایک حالیہ سروے کے مطابق آدھے سے زیادہ یہودی اسرائیلیوں نے کہا ہے کہ وہ غزہ میں بھوک اور قحط کی خبروں سے بالکل بھی پریشان نہیں۔ یہ جواب محض ایک رائے نہیں، بلکہ ایک اجتماعی ذہنیت کا اظہار ہے جو برسوں کے پروپیگنڈے، خوف اور نفرت کے زیرِ اثر پروان چڑھی ہے۔ اس بے حسی کی ایک بڑی وجہ اسرائیلی میڈیا کا رویہ ہے۔ یہ سب کسی حد تک جارج آرویل کے ناول 1984 کی یاد دلاتا ہے جہاں زبان کو قابو کر کے عوام کے شعور کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔سیاسی مبصر ڈینیئل لیوی کے مطابق یہ صرف حالیہ مہینوں کا رجحان نہیں بلکہ کئی دہائیوں کا تسلسل ہے۔ فلسطینیوں کی مسلسل تذلیل اور غیرانسانی تصویر کشی نے اسرائیلی عوام کے دلوں سے ہمدردی کا جذبہ چھین لیا ہے۔ اب وہ بھوک سے بلکتے بچوں کو بھی دشمن کے طور پر دیکھتے ہیں اور کسی اخلاقی سوال سے آنکھیں چرا لیتے ہیں۔ یہ رویہ دراصل ایک طرح کی کاغذی ڈھال ہے۔ عوام جانتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ بہت غلط ہو رہا ہے لیکن وہ اس کا اعتراف کرنے کو تیار نہیں۔ لہذا ذہنی سکون کے لیے وہ ایک ایسی دنیا تخلیق کر لیتے ہیں جس میں صرف ان کی تکلیف اور ان کے قیدیوں کا ذکر ہوتا ہے۔ اس سب کے باوجود عالمی سطح پر اسرائیل کے لیے ماحول تیزی سے بدل رہا ہے۔ کینیڈا، فرانس اور برطانیہ جیسے پرانے اتحادی اب کھل کر تنقید کر رہے ہیں اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے بیانات دے رہے ہیں۔ بین الاقوامی تنظیمیں اور یہاں تک کہ اسرائیل کے اپنے اندر کی این جی اوز بھی اسرائیلی پالیسیوں کو نسل کشی قرار دے رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتوں میں اسرائیل میں احتجاجات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ بائیں بازو کی جماعتیں، انسانی حقوق کے کارکن اور حتی کہ فوجی اہلکاروں کے اہلِ خانہ بھی حکومت کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ ان مظاہروں میں شریک کارکن ایلون لی گرین کا کہنا ہے: ہمیں یہ پروا نہیں کہ کوئی کس وجہ سے جنگ کے خلاف ہے۔ چاہے وہ اس لیے ہو کہ آپ دوبارہ فوجی ڈیوٹی نہیں دینا چاہتے یا اپنے بچوں کو غزہ بھیج کر قاتل نہیں بنانا چاہتے۔ بس اگر آپ جنگ کے خلاف ہیں تو ہمارے ساتھ کھڑے ہوں۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اسرائیل میں ہر کوئی یکساں بے حس نہیں، مگر اکثریت ابھی بھی سرکاری بیانیے کے حصار میں ہے۔ جب ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل کر جنگ جاری رکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ معاشرہ کس حد تک تقسیم کا شکار ہے۔ سوشیالوجسٹ شِنہو کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ریاست اور معاشرہ اب وہ اخلاقی جواز بھی کھو بیٹھے ہیں جو کبھی ہولوکاسٹ کی یاد کے ساتھ وابستہ تھا۔ ان کے بقول: جو علامتی سرمایہ ہولوکاسٹ سے اسرائیل نے حاصل کیا تھا، وہ اب ختم ہو چکا ہے۔ یہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا اسرائیل کی پالیسیوں کو مظلومیت کے پردے میں دیکھنے پر تیار نہیں رہی۔غزہ کی موجودہ صورتحال صرف فلسطینیوں کے لیے امتحان نہیں بلکہ اسرائیلی سماج کے لیے بھی ایک آئینہ ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیلی عوام اپنی سرکار کے پروپیگنڈے کے حصار سے نکل سکیں گے؟ کیا وہ حقیقت کو تسلیم کر کے اس پر ردِ عمل دیں گے؟ یا پھر تاریخ انہیں بھی ان طاقتوں کے زمرے میں شامل کرے گی جو اپنی آنکھوں کے سامنے انسانیت کے قتلِ عام کو دیکھ کر بھی بالکل بھی پریشان نہ ہوئے؟ بھوک اور قحط کی خبروں پر بے حسی، بچوں کی موت پر خاموشی اور عالمی مذمت کے باوجود اپنی پالیسیوں پر ڈٹے رہنا اس بات کی علامت ہے کہ ایک ریاست اور معاشرہ اپنی اخلاقی بنیادیں کھو رہا ہے۔ عشقِ زمین، سلامتی کی خواہش یا سیاسی بیانیہ ، جو بھی وجہ ہو، اسرائیل کے عوام اگر بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی حمایت میں خاموش رہے تو وہ تاریخ کے اس باب میں ایک ایسے کردار کے طور پر یاد کیے جائیں گے جو ظلم دیکھ کر بھی ان دیکھا کرتا رہا۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here