اسرائیلی جارحیت اور مسلم طاقتیں!!!

0
82

اسرائیلی جارحیت
اور مسلم طاقتیں!!!

اسرائیل کی مشرق وسطیٰ میں کھلی جارحیت نے مسلم اُمہ کو سر جوڑنے پر مجبور کر دیا ہے یہاں تک کہ ایک دوسرے کے شدید مخالف ایران اور سعودی عرب بھی مذاکرات کی میز پر آ گئے ہیں کہ اسرائیل کی جارحیت سے کیسے جان چھڑائی جائے جس نے فلسطین کے بعد یمن، قطر ،ایران اور دیگر ممالک کو دھڑلے کے ساتھ نشانہ بنایا ہے جبکہ اب قطر کے خلاف بھی محاذ کھول دیا ہے اور اس کے بعد گریٹر اسرائیل کی بات چیت کی جا رہی ہے جس کا نقشہ بھی منظر عام پر آ گیا ہے، اس ساری صورتحال میں عرب ممالک کو ایک پلیٹ فارم کے تحت اکٹھا ہونا ہی تھا جس کے لیے او آئی سی کے اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کی سپریم کونسل نے دوحہ میں تنصیبات پر اسرائیلی حملے پر بات چیت کے لیے ایک غیر معمولی اجلاس منعقد کیا، رہنماؤں نے جی سی سی کی مشترکہ دفاعی کونسل کو ہدایت کی کہ وہ دوحہ میں ایک ہنگامی اجلاس منعقد کرے، جس سے قبل سپریم ملٹری کمیٹی کے اجلاس میں جی سی سی کی ریاستوں کی دفاعی صورتحال اور خطرات کے ذرائع کا جائزہ لیا جائے۔ یونیفائیڈ ملٹری کمانڈ کو مشترکہ دفاعی میکانزم اور خلیجی ڈیٹرنس کی صلاحیتوں کو فعال کرنے کے لیے ضروری انتظامی اقدامات کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے،سپریم کونسل نے سلامتی کونسل، عالمی برادری اور بااثر ریاستوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی پوری ذمہ داریاں سنبھالیں اور ‘ان خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے ٹھوس اور روک تھام کے اقدامات’ کریں۔اس وقت کی ضرورت ہے کہ اسرائیل کو مذاکرات کی میز لایا جائے اور افہام تفہیم سے معاملات کو نمٹایا جائے کیونکہ جنگ کسی بھی صورت مسائل کا حل نہیں ہوسکتی ہے ، اگر مسلم ممالک مشترکہ طور پر اسرائیل کے خلاف جنگ کا آغاز کرتے بھی ہیں تو اس سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ دنیا مزید کرائسز کا شکار ہوگی، اس لیے سب کے لیے بہتر راستہ یہی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں امن قائم کیا جائے۔
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار اور اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت معطل کرنے کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانا قابل مذمت ہے۔ قطر پر اسرائیلی حملے کو ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا اور دارالحکومت دوحہ میں عرب لیگ اور دیگر اسلامی ممالک کا مشترکہ اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ اسے حسنِ اتفاق کہیں یا کچھ اور لیکن یہ اجلاس ‘ابراہم ایکارڈ’ کے دستخط کی پانچویں سالگرہ کے موقع پر ہو رہا ہے۔ 2021 میں ہونے والے ابراہم ایکارڈ یا ابراہیم معاہدے کے نتیجے میں اسرائیل اور عرب ممالک نے معمول کے تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔اس اجلاس کا انعقاد ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب مشرق وسطیٰ کے ممالک اور اسرائیل کے درمیان سیاسی تناو بڑھتا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی غزہ میں جنگ اب تیسرے سال میں داخل ہو رہی ہے جبکہ خطے کے دیگر ممالک بھی اس کی تباہ کاریوں سے دوچار ہیں۔گزشتہ ہفتے اسرائیل نے غزہ جنگ کے خاتمے کی کوششوں کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے والے قطر پر بھی حملہ کیا۔ اسرائیل اس سے قبل لبنان، ایران، یمن اور شام پر بھی حملے کر چکا ہے۔اسرائیلی حملے کے باوجود دوحہ نے غزہ جنگ کو روکنے کے لیے قاہرہ اور واشنگٹن کے ساتھ اپنی کوششیں جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ قطر کے وزیرِ اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے دوحہ میں عرب اور اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے بند کمرے کے اجلاس کے دوران بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ اپنا ‘دوہرا معیار’ ترک کریں۔دوحہ میں ہونے والا سربراہی اجلاس کا انعقاد مشترکہ طور پر 22 رکنی عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کر رہی ہے۔قطر، مصر اور امریکہ اس وقت حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے معاہدہ کروانے کی کوششیں کر رہے ہیں اور بطور ثالث اپنا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن اس کے جواب میں اسرائیل نے حماس کی مذاکراتی ٹیم کو اس وقت نشانہ بنایا جب ‘وہ جنگ بندی سے متعلق امریکہ کی طرف سے پیش کی گئی تجاویز پر بات چیت کر رہے تھے۔حماس کے رہنما برسوں سے قطر میں مقیم ہیں لیکن اسرائیل نے انھیں پہلی مرتبہ نشانہ بنایا ہے۔’اسرائیل واضح طور پر کشادہ نظر لوگوں کو انھیں قتل کر کے کمزور کر رہا ہے۔ اس سے ان سخت گیر عناصر کی بات کو تقویت ملتی ہے کہ اسرائیل صرف تشدد کی زبان سمجھتا ہے، نہ کہ سفارتکاری کی۔قطر امریکہ کا ایک اہم اتحادی ہے اور وہ دو برس سے حماس اور اسرائیل کے درمیان بطور ثالث کام کر رہا ہے اور اس ملک کے اندر حملے سے ایک ایسی مثال قائم ہوئی ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی،قطر تہران نہیں ہے، بیروت نہیں ہے۔ یہاں امریکہ کا ایک بڑا ہوائی اڈہ موجود ہے اور مغربی سرمایہ بھی لگا ہوا ہے،ہم ایک نئی دنیا، نئے خطے، نئے قوانین کے دور سے گزر رہے ہیں۔پہلے پائے جانے والے مفروضے اب دم توڑ رہے ہیں۔یہ تشویش علاقائی طاقتوں کو اپنی فوجی صلاحیتوں کو مزید بڑھانے کی طرف لے جائے گی۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اسرائیل پر حملہ کریں گے مگر وہ اپنے دفاع کی صلاحیت یقینی بنانا چاہتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here