امیگریشن ضرورت یا مجبوری!!!

0
66
ماجد جرال
ماجد جرال

اینٹی امیگریشن مظاہرے دنیا کے کئی ممالک میں ایک عام منظر بنتے جا رہے ہیں، جیسے ہی حکومتیں امیگریشن پالیسیوں میں نرمی کرتی ہیں یا مہاجرین کی تعداد بڑھتی ہے، بعض حلقے خدشات کے ساتھ سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ یہ مظاہرے جمہوری معاشروں میں عوامی آواز کا اظہار بھی سمجھے جاتے ہیں اور ان پر کڑی تنقید بھی کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان کے کیا فوائد ہیں اور کون سے نقصانات معاشروں پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ احتجاج جمہوریت میں بنیادی حق ہے۔ اگر کسی طبقے کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ تارکین وطن کی آمد سے ان کے روزگار، سہولیات یا ثقافتی شناخت کو نقصان پہنچ رہا ہے تو وہ سڑکوں پر نکل کر اپنی رائے ظاہر کرنے میں حق بجانب ہے۔ اس طرح کے مظاہرے حکمرانوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ پالیسی سازی صرف اعداد و شمار کی بنیاد پر نہیں بلکہ عوامی جذبات کو مدِنظر رکھ کر ہونی چاہیے۔ بعض اوقات ان مظاہروں کے نتیجے میں حکومتوں پر دبا بڑھتا ہے کہ وہ مقامی شہریوں کے لیے روزگار کے بہتر مواقع پیدا کریں اور بارڈر کنٹرول کو مثر بنائیں تاکہ غیر قانونی امیگریشن کو روکا جا سکے۔ یوں یہ احتجاج کسی حد تک عوامی خدشات کے ازالے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف اس تصویر کا ایک تاریک رخ بھی ہے۔ اینٹی امیگریشن مظاہرے اکثر معاشرتی ہم آہنگی کو چیلنج کرتے ہیں۔ احتجاجی نعروں اور تقاریر میں شدت پسندی اور تعصب کا عنصر شامل ہو جاتا ہے جو مقامی افراد اور تارکین وطن کے درمیان خلیج کو بڑھا دیتا ہے۔ یہ خلیج بعض اوقات نفرت، نسلی امتیاز اور حتی کہ تشدد کی شکل بھی اختیار کر لیتی ہے۔ کثیرالثقافتی معاشروں کے لیے یہ رجحان نہایت نقصان دہ ہے کیونکہ اس سے وہ بنیادی ڈھانچہ متزلزل ہوتا ہے جس پر برداشت اور رواداری کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ معاشی پہلو سے بھی دیکھا جائے تو یہ مظاہرے ہر بار مثبت نتائج نہیں دیتے۔ کئی ممالک میں مہاجرین محنت کش طبقے کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ وہ تعمیرات، زراعت اور خدمات کے شعبے میں کم اجرت پر محنت کر کے معیشت کو سہارا دیتے ہیں۔ اگر ان کے خلاف نفرت اور امتیازی رویہ بڑھتا ہے تو یہ محنت کش طبقہ متاثر ہوتا ہے اور ملکی معیشت بھی دبا میں آ جاتی ہے۔ یوں احتجاج کا مقصد تو مقامی شہریوں کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے مگر نتیجہ بعض اوقات الٹا نکلتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی یہ مظاہرے کسی ملک کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ جب دنیا دیکھتی ہے کہ کسی معاشرے میں بار بار غیر ملکیوں کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے تو یہ تاثر ابھرتا ہے کہ وہاں برداشت اور رواداری کی کمی ہے۔ اس تاثر کا اثر نہ صرف سفارتی تعلقات پر پڑتا ہے بلکہ غیر ملکی سرمایہ کار بھی ایسے معاشرے میں سرمایہ کاری سے ہچکچاتے ہیں۔ یوں ایک داخلی معاملہ عالمی سطح پر ملک کی پوزیشن کو کمزور کر دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اینٹی امیگریشن مظاہرے دو دھاری تلوار ہیں۔ یہ ایک طرف جمہوری حق اور عوامی خدشات کی عکاسی کرتے ہیں تو دوسری طرف معاشرتی تقسیم، معیشت اور بین الاقوامی تعلقات کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتیں متوازن رویہ اختیار کریں۔ ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جو مقامی شہریوں کے خدشات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ تارکین وطن کے حقوق اور معاشرتی ہم آہنگی کو بھی یقینی بنائیں۔ کیونکہ اگر یہ مسئلہ صرف جذبات اور تعصب کی نظر ہوا تو احتجاج کا یہ شور وقتی نہیں بلکہ مستقل تقسیم کا بیج بو سکتا ہے، جس کے اثرات نسلوں تک محسوس کیے جائیں گے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here