امریکی سیاست کس جانب؟ مستقبل میں اندیشہ !!!

0
100
کامل احمر

ہر بار کالم لکھنے سے پہلے ہم سوچتے ہیں کچھ اور لکھا جائے، کوئی اچھی بات کہی جائے۔ کوئی اسلامی تاریخ بتائی جائے۔ بابر محفل بادشاہ سے جلاد ملکہ اسپین کی ظالمانہ اور دھوکے بازی کی حرکتیں بتائی جائیں، سمجھتے تھے کہ ازا بیلا کا باب ختم ہوا لیکن ایسا کہنا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے لیکن پچھلے78سالوں میں تاریخ کا بدغا چہرہ سامنے آجاتا ہے اور یہاں امریکہ میں بھی آکر ایک شخص نے امریکہ کی مدد سے دنیا بھر کو تنگ کر رکھا ہے۔ یہ اولادیں اور داماد کسی بھی بادشاہ یا موجودہ حکمرانوں کے لئے عذاب ہیں۔ جیسے ڈونلڈ ٹرمپ جس کا داماد کہلاتا یہودی ہے لیکن وہ امریکہ کی پالیسی کے لئے نیتن یاہو کا مشیر ہے اور پردے کے پیچھے اپنے عزائم کو تکمیل دے رہا ہے کہ دنیا میں امریکہ کی پالیسی سے سب کو نفرت ہے۔ طاقت ور ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کمزور کو کچاّ چبالیں اور ایسا ہی ہو رہا ہے اس کی نمائندگی نتن یاہو کر رہا ہے۔ دوحہ(قطر) میں اسرائیل کی بے خوف وخطر میزائل مارنے کی پہل یہ بتا رہی ہے کہ وہ پورے مڈل ایسٹ کو ہڑپ کر جائے گا اور ایسا کرنے میں اُسے کوئی روک نہیں سکتا۔
پچھلے ہفتہ سکیورٹی کونسل میں پاکستان اور اسرائیل کے نمائندے کے درمیان جو منہ ماری ہوئی لگا کہ پاکستان جواب دینے کے لئے تیار ہے نمائندے عاصم افتخار احمد نے اسرائیلی نمائندے ڈینی ڈینن کو سخت جواب دیئے جس سے پاکستانیوں کو خوش ہونا چاہیئے۔ کہنے چلیں کہ ہم کسی سے نفرت کا اظہار نہیں کر رہے نہ ہی اس کی پرواہ کہ کون یہودی کون کرسچین، کون ہندو اور کون مسلمان ہے اگر وہ امن کے لئے ہیں تو ہمارے اور نہیں تو وہ سب کے دشمن اسرائیل پچھلے کئی برس سے حماس حماس کی رٹ لگا رہا ہے اور اس کی آڑ میں غزہ کے نہتے بچوں، عورتوں اور آدمیوں کو بے حساب حملہ کرکے مار رہا ہے۔ اسرائیلی ڈینی ڈینن نے بن لادین کے تعلق سے غیر ضروری بات کی جب کہ اسرائیل پوری تاریخ جانتا ہے اس پر عاصم افتخار نے لتاڑ پلائی مگر وہ بے شرمی سے سنتا رہا اور معافی مانگ کر پھر وہ ہی بے تکی باتیں کرتا رہا اس دوران پاکستان پر بھی حملے کا شبہ ظاہر کیا۔ وہ اپنی حد سے بڑھ کر بول رہا تھا۔ ہر چند کہ ہم عاصم منیر کو پسند نہیں کرتے لیکن پاکستان کی ایئرفورس نے دشمنوں کو جارحانہ انداز میں جواب دیئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسرائیل اپنی بھڑاس نکال لے ہماری ایئرفورس کے جوان تیار ہیں۔ پاکستان کو قطر دبئی، سعودی عربیا اور کویت نہ جانے جو تیل کے سمندر پر تیر رہے ہیں ہمیں یقین ہے کہ اسرائیل کو خاطر خواہ سے کہیں زیادہ سخت جواب ملے گا۔ آج کی جنگ دور بیٹھ کر میزائل اور جہاز سے بم گرانے کی ہے دوبدو آمنے سامنے تلوار بازی کی نہیں۔ اسرائیل بڑی ترتیب سے، شام، لبنان، ایران، اور یمن پر گولے باری کرکے اب قطر پر حملہ آور ہوا ہے اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتا رہا ہے اور کر رہا ہے دلچسپ بات یہ تھی کہ دوہا پر پھینکے جانے والے میزائل سعودی عربیہ کے اوپر سے مدینہ اور مکہّ معظمہ پر سے گزر کر گئے تھے۔ کہاں سے مارے گئے تھے۔ کھوج لگائی جارہی ہے۔ اور اب ہم بتاتے چلیں کہJEWISMاورZIONISM کا فرق صہیونی (ZIONISM) کی بنیاد1903میں تھیوڈ رہرزی نے رکھی تھی یوگنڈہ میں لیکن یوگنڈہ نے نکال باہر کیا۔ تمام یہودی صیونی نہیں اور نہ ہی تمام صیحانی یہودی ہیں۔ نہ ہی یہودی انہیں سوپرٹ کرتے ہیں۔ اور یہ جو کچھ اسرائیل کر رہا ہے یہ ان ہی صہیونی لوگوں کا ایجنڈا ہے۔ یہودی جنہیں ہم1972سے جانتے ہیں نہایت ہی امن پسند اور مددگار لوگ ہوتے تھے۔ لیکن نتن یاہو کا ایجنڈہ بالکل مختلف ہے وہ یہودی کم اور صہیونی زیادہ ہے۔ یہ بھی کہ اب تک اسرائیل پر حکومت کرنے کا طویل عرصہ اسی نے گزارا ہے اس سے پہلے جو وزیراعظم رہ چکے ہیں ان ہی میں سے انہوں نے مصر اور اسرائیل کے علاوہ اردن اور اسرائیل کے درمیان امن کا معاہدہ کیا تھا۔ اس وقت صدر جمی کارٹر اور صدر کلنٹن تھے آخری بار یاسر عرفات اور اسرائیل کے درمیان امن کا معاہدہ ہوتے ہوتے رہ گیا، عرفات فلسطین میں پورے یروشلم کو شامل کرنا چاہتے تھے اور اسرائیل کو انکار تھا۔
جو اچھے وزراء گزرے ہیں انکا نام دینا ضروری ہے اسحاق روبین شمعون، پیریز، گولڈ ایئر ذرا سخت مزاج تھیں، اندرا گاندھی کی طرح پھر نتن یاہو نے اسرائیل کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ پہلے1996سے 1999تک دوسری بار2009سے2021تک اور تیسری بار دسمبر29 2022سے اب تک اس کی جارحانہ پالیسی میں پورا مڈل ایسٹ اور جہاں جہاں انہوں نے حملے کئے ہیں شامل ہے پچھلے سال شام پر حملہ کیا اور اس سال بشر اسد وہاں کے صدر نے ملک چھوڑ کر روس میں پناہ لی۔ اور اب آدھے شام پر اسرائیل کی فوج بیٹھی ہے اور آدھے شام پر25جنوری2025 سے احمد الشرہ نگران ہے اسرائیل کی نگرانی میں اندازہ لگا سکتے ہیں۔ نتن یاہو کے کارنامے جس کی وجہ سے امریکہ بیرون ملک میں اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے اور اگر صہیونیت اس طرح کام کرتی رہی اور یہاں کے سیاست داں AIPAC کو حلف دیتے رہے تو یہ سوچنا مشکل نہیں کہ ملک کے اندرونی حالات خراب ہوسکتے ہیں۔
حالیہ مثال ریپبلکن پارٹی کے چارلی کرک کی موت ہے جنہیں 22سالہ لڑکے نے گردن پر گولی مار کر موت کی نیند سلا دیا۔اس کے پیچھے کیا ہے روز بروز مختلف لوگ راز کھول رہے ہیں ایسا کہنا ہے کہ چارلی کرک نے نتن یاہو کی بات ماننے سے انکار کردیا تھا۔ جب کہ اُسےAIPACکی طرف سے پیسوں کی آفر دی گئی تھی الیکشن لڑنے کے لئے۔ کیا بات تھی جو چارلی کرک کرنا چاہتا تھا اور کونسی بات تھی جو اسرائیل چارلی کرک سے منوانا چاہتے تھے اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ھبس میں چنگاری ڈالی جاچکی ہے اور اسرائیل کے لئے خطرہ ہے لیکن اس میں امریکہ کا امن اور مالی حالت تباہ ہوگی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ کیا کر رہے ہیں ابھی قطر پر اسرائیلی حملے کے سوال پر ان کا کہنا ہے انہیں بعد میں بتایا گیا کیسے ممکن ہے ہمارے صدر غلط بیانی کے لئے اندروں اور بیرون ملک اپنی پہچان بنا چکے ہیں انہوں نے قریب وہ لوگ رکھے ہیں جو انہیں امریکہ کی بہتری سے زیادہ نتن یاہو کی بہتری کا مشورہ دینگے یا ہاں میں ہاں ملائینگے۔ کینڈی جونیر کو چھوڑ کر اُن کے قریب کوئی اچھا مشیر نہیں یہ بھی نتن یاہو کے تحت ہے اور یہ اچھا نہیں۔
٭٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here