ابھی نہیں تو کبھی نہیں!!!

0
72
شبیر گُل

قطر پر اسرائیلی جارحیت کے پر عرب لیگ اور او آئی سی کا اجلاس دوحا میں جاری ہے۔ جو خطے میں اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لئے کسی نتیجہ پر پہنچے گا۔قطر عرب ممالک میں بہت اہمیت کا حامل ملک ہے۔ جومسلمان ممالک میں ہمیشہ ثالثی کا کردار ادا کرتا ہے۔ اسرائیل کے قطر پر حملہ سے عرب ممالک میں سراسیمگی پھیل گئی ہے۔ اسرائیلی وحشت نے عرب ممالک کو اتحاد پر مجبور کردیا ہے۔ اب عرب ممالک ابراہیم اکارڈ سے باہر نکلنا چاہ رہے ہیں۔ اس صورتحال میں اگر عرب ممالک ابراہیم اکارڈ سے نہیں نکلتے تو وہ اپنے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کرینگے۔ امریکہ کی منافقت عرب ممالک پر عیاں ہو چکی ہے۔ نیویارک ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ نیتن یاہو نے آٹھ بجے ٹرمپ کو فون کرکے اعتماد میں لیا اور ساڑھے آٹھ بجے قطر پر حملہ ہو گیا۔ جس میں امریکہ مکمل ملوث ہے۔ اب عربوں کو امریکہ پر بھروسہ نہیں رہا۔ عرب ممالک کی خواہش ہے کہ پاکستان اسرائیل پر حملہ کردے۔اور قطر کے جدید ترین جہاز پاکستانی پائلٹ چلائیں۔قطر اپنی افواج کی ٹریننگ کیلئے پاکستان سے پندرہ بلین ڈالر کا معاہدہ کررہاہے۔ مسلم ورلڈ میں پاکستان اور ترکی کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ قطر کی طرف سے صدر ٹرمپ کو چارسو ملین کا جہاز کا تحفہ بھی کچھ نہیں کرسکا۔اسلئے عربوں کو سوچنا چاہئے کہ اپنے ڈیفینس کیلئے افواج کا تربیت یافتہ ہو نا انتہائی ضروری ہے۔ امریکہ پر دفاعی انحصار کم کرنے اور امریکہ کو عرب ممالک سے باہر کرنے کی تجاویز پر غور شروع ہو ا ہے۔ یاد رہے کہ قطر میں دس ہزار ، عراق میں پچاس ہزار اور سعودیہ عرب میں پینتیس ہزار فوجی امریکی ان کی حفاظت پر مامورہیں۔ یاد رہے کہ امریکہ اور یورپ عرب ممالک کو ہزاروں بلین ڈالرز کا اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔ امریکی منافقت کے بعد قطر نے پاکستان سے چالیس JF-17 , میزائل سسٹم – چین سے J-10C فائٹر اور روس سے S-500 ڈیفینس سسٹم مانگ لئے ہیں۔
عربوں نے نئے ڈیفینس ڈاکٹرائن پر کام شروع کردیاہے۔ پاکستان، چین، ترکی اور روس کا عربوں سے ڈیفینس پر بات چیت کا آغاز ہو چکا ہے۔ عرب ممالک کا امریکہ پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ مارکو روبیو کا یروشلم کا دورہ اور دیوار گریہ پر خاضری اشارہ ہے کہ امریکہ ہر صورت سرد ،گرم حالات میں اسرائیل کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ عرب ممالک نے امریکہ سے جو اسلحہ خریدا ہے اسکا ڈی کوڈ سسٹم امریکہ کے پاس ہے۔ تاکہ یہ اسلحہ اسرائیل کے خلاف استعمال نہ ہو ۔یعنی عرب ممالک کے پاس امریکی اسلحہ اور دفاعی سسٹم ناکارہ اور لوہے کے کھلونوں کے کھلونے ہیں۔ قطر نیٹو کو اپنی خفاظت کے لئے سالانہ اربوں ڈالرز فراہم کرتا ہے۔ امریکہ سے دفاع کیلئے اربوں ڈالرز کے معاہدے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی دو روز پہلے حماس کو دہمکی اسی لئے تھی۔ کیونکہ امریکہ ،اسرائیل کے ساتھ آن بورڈ تھا۔ آج غزہ کی تباہی پر خاموش رہنے والے اپنے گھروں میں آگ پہنچنے پر ہو ش میں آئے ہیں۔ امریکہ نے ہمیشہ سے ایران کا ہو ا کھڑا کرکے عرب ممالک میں اپنے بیس بنارکھے ہیں۔ لیکن اب وقت آگیا ہے عرب ملکر اسرائیل کو سبق سکھائیں۔ اور امریکی اڈوں کا اپنے ممالک سے بستر گول کریں۔تمام مسلم ممالک خصوصا عرب ممالک اسرائیل سے ہر قسم کا لین دین مکمل بند کریں۔ آج کویت نے اسرائیلی پاسپورٹ رکھنے والوں اور اسرائیلی ویزہ رکھنے والوں کا کویت میں داخلہ بند کرکے گونگلوں سے مٹی جاڑی ہے۔ قطرنے سو جوتے اور پیاز کھا کر پاکستان ائر فورس سے مدد مانگ لی ہے۔ عربوں کو احساس ہو گیا ہے کہ انکی بقا مشترکہ فورس کے قیام میں مضمر ہے۔ تربیت یافتہ فوج کا ہو نا ضروری ہے۔ عرب ممالک نیٹو طرز کا اتحاد قائم کرنے جارہے ہیں۔ عرب ممالک پر مشتمل ٹاسک فورس کے قیام کی تجویز زیر غور ہے۔ قطر کاکہنا ہے کہ!ہم بدلہ لیں گے اب دیکھتے ہیں۔ بدلہ کیسے لیتے ہیں۔ بھارت کے پاکستان پر حملہ کے وقت کہہ رہے تھے کہ اگر آپ بھارت سے لڑے تو وہ آپکو غزہ بنادے گا۔ آج آرٹیفیشل ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ عرب ممالک میں کمپوٹر ٹیکنالوجی ہو یا آرٹیفیشل ٹیکنالوجی اسے بھارتی ایکسپرٹس آپریٹ کرتے ہیں۔ بھارت کی را اور اسرائیلی موساد ملکر کام کرتے ہیں۔ بھارتی آئی ٹی ایکسپرٹ،کئی ممالک میں کام کرتے ہیں۔ آئی ٹی انڈسٹری، بینکنگ انڈسٹری،آٹو موبائل، فرنیچر، کلوتھنگ، آئل انڈسٹری،ہوٹلنگ، الیکٹرانس انڈسٹریز ،بینکنگ،ٹریول انڈسڑی سے ساٹھ لاکھ بھارتی منسلک ہیں۔ کئی بھارتی آئی ٹی ایکسپرٹس،دوبئی، سعودی عرب، کویت، ترکی اور ایران میں موساد کیلئے کام کرتے ہیں۔ عربوں کے پاس جدید ٹیکنالوجی اور جدید اسلحہ ،اور جدید ڈیفینس سسٹم موجود ہے۔ جیسے امریکنز آپریٹ کرتے ہیں۔ عربوں کی خفاظت کیلئے امریکن اڈے اور امریکن فوجی موجود ہیں۔ عربوں کا دفاعی انخصار امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔ یعنی دودھ کی رکھو الی پر باگڑ بلے معمور ہیں۔ قطر کو امریکہ سے ایک ہزار بلین بلین ڈالرز اسلحہ کی ڈیل بھی کسی کام نہ آئی۔ کرائے کے فوجی کبھی میدان جنگ میں نہیں لڑتے۔ اور نہ ہی بلی کو دودھ کی رکہو الی پر رکھا جاسکتا ہے۔ قطر میں ائیر ڈیفینس سسٹم پر امریکہ کا کنٹرول ہے۔ جارڈن، سیریا ، سعودی عرب کے ڈیفینس سسٹم بھی ناکارہ ثابت ہو ئے۔ کیونکہ ان پر امریکنز کا کنٹرول ہے۔ اسرائیلی طیارے بائی پاس کرتے ہو ئے قطر پر حملہ آور ہو ئے۔عرب ممالک ایران اور فلسطین میں اسرائیلی جارحیت پر ہمیشہ خاموش رہے۔ اب انہیں مکافات عمل کا سامنا ہے۔ جن عرب ممالک میں امریکن بیس ہیں۔ انہیں فورا یہ اڈے ختم کرنا ہو نگے۔ اگر حماس قیادت ختم ہو تی تو ٹرمپ اس کا کریڈٹ لیتا۔ کہ ہم نے حماس قیادت کا خاتمہ کردیا۔اب کہا جا رہا ہے کہ امریکہ اس میں شامل نہیں۔ ٹرمپ انتہائی جھوٹا شخص ہے۔ اسکی کسی بات پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ٹرمپ کو ووٹ کرنے والے مسلمان اب سوچ رہے ہیں کہ انہوں نے اسے ووٹ کرکے غلطی کی ہے۔ حماس کا دعوی ہے کہ انکی لیڈرشپ مخفوظ ہے۔ جو امریکہ پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں۔ انکی آنکھیں اور کان کھل چکے ہیں۔ اربوں ڈالرز کے تخائف بھی انکے کسی کام نہیں آئے۔ اسرائیلی پریس کا دعوی ہے کہ ہمارا اگلا ہدف ترکی ہے۔ یاد رہے کہ ترکی میں موساد کے ایجنٹ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ جو ایرانی طرز کا حملہ کرسکتے ہیں۔ لیکن اسکے جواب میں اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی۔اسرائیل وہ عالمی غنڈہ ہے جس کے خلاف یو این او میں ہزاروں درخواستیں پیش ہو ئیں۔ جس کا کبھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ امریکہ اسے ویٹو کردیتا ہے۔ عالمی غنڈے اور خونخوار درندے ،اسرائیل کے خلاف عربوں کو جرآتمندی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ عربوں کو اپنی بقا کے لئے امریکہ سے دفاعی معاہدے اور بیس کینسل کرنا ہو نگے۔ امریکن دفاعی سسٹم پر انخصار انکی تباہی کا موجب ہے۔ امریکہ کو یاد رہنا چاہئے کہ نیتن یاہو کی جارحیت اسرائیل کے خاتمے پر ہی منتجع ہو گی۔جنگی جنون میں مبتلا اسرائیل کی تباہی یقنی ہے۔ اسرائیل کی خونخواری کو روکنے کے لئے عربوں کو کھڑا ہو نا پڑے گا۔ اگر عربوں کو غیرت نہ آئی۔ متحد نہ ہو ئے۔ تو نیتن یاہو گریٹر اسرائیل کے منصوبہ پر عمل پیرا ہو گا۔اس منصوبہ میں اسرائیل کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ مشرق وسطی سے امریکی بیڑوں کی موجودگی بھی خطہ کے لئے الارمنگ ہے۔ اسرائیل کی ایران پر جارحیت کے موقع پر عربوں کی خاموشی نے اسرائیل کو خطے میں من مانی کا راستہ فراہم کیا۔اسرائیل بار بار عربوں کی غیرت کو جگانے کی کوشش کرتا ہے لیکن عربوں میں حیااور شرم کی کمی ہے۔ قطر پر حملوں کے خلاف پندرہ ستمبر کو او آئی سی کا اجلاس بلایا گیا ہے۔ جو اسرائیل کی مذمت کرینگے۔ بددعائیں دینگے۔ اور فوٹو سیشن کے بعد اجلاس کا حسب سابق اختتام ہو گا۔عرب لیگ اور او آئی سی ہیجڑوں کا وہ گروپ ہے۔ جو ٹرمپ کی آمد پر اپنی لڑکیاں پیش کرتے ہیں۔ خدا کرے او آئی سی اجلاس میں بڑے فیصلے ہو تے نظر آئیں۔ عربوں میں جذبہ ،غیرت اور حمیت کی کمی ہے۔ بے پناہ دولت نے عربوں کو بزدل بنادیاہے۔ عرب لیگ ہو یا او آئی سی ،ہیجڑوں کا ٹولہ ہے۔ عرب ممالک کی امریکہ میں ٹریلن آف ڈالرز کی اسلحہ ڈیل انہیں دفاع فراہم نہیں کرسکتا۔امریکہ ہمیشہ سے اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ عیاش عرب حکمران یورپ اور امریکہ پر انخصار کرتے ہیں۔ اپنے دفاع کے لئے تیل کی دولت یورپ اور امریکہ میں برباد کرتے ہیں۔ اسلئے آج اسرائیل کو بھرپور جواب دینے سے قاصر ہیں۔ عرب نہ اسرائیل سے لڑ سکتے ہیں اور نہ ہی بات کرنے کی جرآت رکھتے ہیں۔ یہ حکمران کبھی جنگ اور جہاد نہیں کرسکتے۔
قارئین! جب امریکہ نے ویت نامی انقلابیوں کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیا تو اس نے انہیں کہا کہ پیرس میں اپنا ایک وفد بھیجیں تاکہ جنگ بندی پر بات چیت ہوسکے۔ اس وقت ویت نامی مجاہدین امریکی فوجیوں پر کاری ضربیں لگا چکے تھے اور ان کے ساتھ سخت سلوک بھی کیا تھا۔چنانچہ ویت نامی انقلابیوں نے چار افراد پر مشتمل ایک وفد بھیجادو خواتین اور دو مرد۔ امریکی خفیہ اداروں نے اس وفد کے لیے پیرس کے اعلی ترین ہوٹلوں میں قیام و طعام کا بندوبست کیا، ہر طرح کی آسائشیں، راحتیں اور نعمتیں مہیا کر دیں۔ لیکن جب وفد پیرس کے ہوائی اڈے پر اترا تو وہاں موجود امریکی کاریں انہیں ہوٹل لے جانے کے لیے تیار کھڑی تھیں، مگر ویت نامی وفد نے ان میں بیٹھنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ اپنی مرضی سے قیام کریں گے اور وقت پر اجلاس میں پہنچ جائیں گے۔ امریکی وفد کو یہ سن کر حیرت ہوئی۔ انہوں نے پوچھا: “آپ کہاں قیام کریں گے؟” وفد کے سربراہ نے جواب دیا: “ہم پیرس کے ایک مضافاتی علاقے میں مقیم ایک ویت نامی طالب علم کے گھر میں رہیں گے۔” امریکی نمائندہ مزید حیران ہوا اور کہا: “ہم نے تو آپ کے لیے ایک شاندار اور آرام دہ ہوٹل کا بندوبست کیا ہے۔” اس پر ویت نامی نے کہا: “ہم تو آپ سے لڑائی کے دوران پہاڑوں میں رہتے تھے، چٹانوں پر سوتے اور گھاس پھوس کھا کر گزارا کرتے تھے۔ اگر اب ہماری زندگی بدل گئی تو ڈرتے ہیں کہ کہیں ہمارے ضمیر بھی نہ بدل جائیں۔ اس لیے ہمیں ہماری حالت پر رہنے دیں۔” چنانچہ وفد نے اس طالب علم کے گھر میں قیام کیا، اور بعد ازاں یہی مذاکرات امریکی قبضے کے مکمل خاتمے کا سبب بنے۔ جب دونوں وفود ہوائی اڈے پر ملاقات کے لیے آئے تو امریکی نمائندہ مصافحہ کرنے کے لیے آگے بڑھا مگر ویت نامیوں نے ہاتھ بڑھانے سے انکار کر دیا اور ان کے سربراہ نے کہا: ”ہم اب بھی دشمن ہیں، ہمارے عوام نے ہمیں آپ سے مصافحہ کرنے کا اختیار نہیں دیا۔ جو اپنا ضمیر بیچ دے، وہ اپنا وطن بھی بیچ دیتا ہے۔” ایک دن جنرل ”جیاب”جو ویت نامی انقلابی رہنمائوں میں سے تھے نے ستر کی دہائی میں ایک عربی دارالحکومت کا دورہ کیا، جہاں فلسطینی ”انقلابی” تنظیمیں موجود تھیں۔ وہاں جا کر اس نے دیکھا کہ ان کے قائدین پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں: جرمن گاڑیاں، کوبائی سگریٹ، اطالوی مہنگے سوٹ، اور فرانسیسی قیمتی خوشبوئیں۔ جب اس نے یہ سب اپنی ویت کانگ کے جنگلوں کی زندگی سے موازنہ کیا تو بے ساختہ ان سے کہا:
“آپ کی بغاوت کبھی کامیاب نہیں ہوگی!!!
انہوں نے پوچھا: “کیوں؟”
جنرل جیاب نے جواب دیا:
“کیونکہ انقلاب اور دولت اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ وہ بغاوت جو شعور کے بغیر ہو دہشت گردی میں بدل جاتی ہے، اور وہ بغاوت جس پر مال و دولت برسائی جائے اس کے قائدین چور بن جاتے ہیں۔اگر کوئی شخص انقلاب کا دعوی کرے مگر خود محلوں اور کوٹھیوں میں رہے، لذیذ کھانے کھائے، اور عیش و عشرت کی زندگی بسر کرے، جبکہ باقی عوام کیمپوں میں رہیں اور زندہ رہنے کے لیے بین الاقوامی امداد کے محتاج ہوں تو سمجھ لو کہ وہ قیادت حقیقتا ًانقلاب لانا ہی نہیں چاہتی۔ اور جس قیادت کو انقلاب کی کامیابی مطلوب ہی نہ ہو، اس کی بغاوت کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔”اصل میں مغرب اور امریکہ کو حماس اور ایسی تمام تنظیموں سے خطرہ ہے جو ان کے راستے میں کانٹا ہیں ،اور ان تمام مسلمان ہیجڑوں کو بھی اپنے مسلمان بھائیوں سے خطرہ رہتا ہے جو ان کی عیاشی کے راستے میں کانٹا بن سکتے ہیں۔ اسرائیل صدر نیتن یاہو نے مسلم ممالک دہمکی دی ہے۔ اور کہا ہے کہ پاکستان اور ایران نیوکلئیر ملک ہیں انکا نیوکلئیر پروگرام ختم کرنا اسکا مشن ہے۔ اسرائیل کی ایسی کی تیسی بیشک اسرائیل کے ساتھ امریکہ اور یورپ کھڑا ہے۔ پاکستان الحمد للہ اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان، ترکی اور ایران ،اسرائیل کو متحد ہو نا بہت ضروری ہے۔ اپنی بقا کے لیے عربوں کو ان پر اعتماد کرنا ہو گا۔ کیونکہ اسرائیل ہمارا مشترکہ دشمن ہے۔ جو قبلہ اول پر قابض ہے۔ جس کے منہ کو خون لگ چکا ہے۔ کبھی لیبیا اور عراق، کبھی مصر اور شام۔ کبھی لبنان اور جارڈن۔ کبھی فلسطین اور ایران۔ کیونکہ اسکی پشت پر امریکہ اور یورپ ہے۔ اس لئے یہی وہ وقت ہے کہ مسلم ممالک اپنی مشترکہ فورس بنائیں۔ اور اس صیہونی اور شیطان ریاست کا خاتمہ کریں۔ یہ وقت دعاں اور بددعاں کا نہیں ہے۔ عملی اقدامات کا ہے۔ دنیا میں امن اور سکون کے لئے۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here