خود مختار فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ!!!

0
43

برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور پرتگال کی جانب سے فلسطینی ریاست کے وجود کو تسلیم کرنے کا فیصلہ دنیا میں بقائے باہمی کے حوالے سے ایک تاریخی موڑ ہے۔ یہ فیصلہ محض سفارتی کارروائی نہیں بلکہ عالمی ضمیر کی بیداری کا اظہار ہے۔ یہ اس حقیقت کی گواہی ہے کہ فلسطینی عوام کی دہائیوں پر محیط جدوجہد اب عالمی سطح پر نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے موقع پر مزید کئی ممالک ، بیلجم، فرانس، سان مارینو، لکزمبرگ، مالٹا اور اندورا بھی اسی سمت بڑھ رہے ہیں، جبکہ فن لینڈ اور نیوزی لینڈ کی جانب سے بھی مثبت اشارے مل رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب اسرائیلی جارحیت اور غزہ کی تباہی نے دنیا کے سامنے فلسطینی عوام کی بے بسی اور ان کے حقِ خودارادیت کے کچلے جانے کی تصویر کھول کر رکھ دی ہے۔اس پیش رفت کی سب سے بڑی معنویت برطانیہ اور کینیڈا کے فیصلوں میں ہے۔ برطانیہ نہ صرف نوآبادیاتی دور میں مشرقِ وسطی کی تاریخ کے اہم فیصلوں کا ذمہ دار رہا بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہونے کی حیثیت سے اسے ویٹو پاور بھی حاصل ہے۔ اس کے تسلیم کرنے سے ایک واضح پیغام گیا ہے کہ عالمی طاقتیں بھی اب فلسطینی عوام کے حقوق کو نظر انداز نہیں کر سکتیں۔ کینیڈا کا فیصلہ بھی کم اہم نہیں، کیونکہ یہ پہلا جی سیون ملک ہے جس نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر کے اپنے عالمی کردار میں اصولی موقف اپنایا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی دنیا میں اسرائیل کے یکطرفہ بیانیے کو پہلی بار حقیقی چیلنج درپیش ہے۔یہ سوال اہم ہے کہ فلسطینی ریاست کی تسلیم یابی سے زمینی حقائق کس حد تک بدلیں گے۔ ظاہر ہے کہ محض تسلیم کرنے سے فلسطینی عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں ہوگا، لیکن اس فیصلے نے ایک نئی بنیاد فراہم کی ہے۔ سب سے پہلے تو اسرائیل پر قانونی اور اخلاقی دباو بڑھے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی عدالتِ انصاف اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارمز پر فلسطینی موقف کو زیادہ طاقتور انداز میں پیش کیا جا سکے گا۔ غزہ کی بمباری، بستیوں کی توسیع اور فلسطینی شہریوں کی جبری بے دخلی جیسے اقدامات پر اسرائیل کے خلاف رائے عامہ پہلے ہی ابھر رہی تھی، اب اس میں قانونی اور سفارتی جواز بھی شامل ہو گیا ہے۔ اگر یورپی یونین کے بڑے ممالک جیسے فرانس اور بیلجیئم بھی فلسطین کوتسلیم کرنے کا اعلان کر دیتے ہیں تو اسرائیل پر دباو کئی گنا بڑھ جائے گا۔ ایسے میں اسرائیل کے لیے نہ صرف سفارتی تنہائی بڑھے گی بلکہ اقتصادی اور عسکری امداد فراہم کرنے والے ممالک پر بھی اپنے رویے پر نظرثانی کرنے کا دباو پڑ سکتا ہے۔تاہم ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی بیانات کے باوجود زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوئے۔ اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں اور مغربی حمایت نے اسے ہر سطح پر فائدہ پہنچایا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ ممالک جو فلسطینی ریاست کو تسلیم کر رہے ہیں محض اعلانات پر اکتفا نہ کریں بلکہ عملی اقدامات کی طرف بڑھیں۔ ان اقدامات میں انسانی حقوق کی نگرانی کے لیے بین الاقوامی مبصرین کی تعیناتی، اسرائیلی جنگی جرائم کی تحقیقات میں تعاون، اور فلسطینی عوام کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات شامل ہیں۔ خاص طور پر غزہ میں جاری انسانی بحران کے تناظر میں فوری انسانی امداد اور بحالی کے منصوبے ناگزیر ہیں۔ ضروری ہے کہ عالمی برادری فلسطین کو تسلیم کرنے کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرے۔ اس وقت تک اسرائیل کو مغربی ممالک کی کھلی چھوٹ حاصل رہی ہے، جس کے نتیجے میں وہ بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتا رہا۔ اگر یہ نئے فیصلے صرف علامتی رہ گئے تو اسرائیل پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ ان فیصلوں کے ساتھ تجارتی اور عسکری تعلقات کو مشروط کیا گیا تو یہ اسرائیل کے رویے پر حقیقی اثر ڈال سکتے ہیں۔ ایک اور پہلو جس پر غور ضروری ہے وہ یہ ہے کہ فلسطینی قیادت کو بھی اس موقع کو غنیمت جاننا ہوگا۔ بین الاقوامی سطح پر بڑھتی ہوئی حمایت کو صرف سفارتی کامیابی پر ختم نہ کیا جائے بلکہ داخلی سطح پر سیاسی اتحاد اور حکمرانی کی شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔ حماس اور الفتح کے درمیان تقسیم فلسطینی تحریک کی سب سے بڑی کمزوری رہی ہے۔ اگر عالمی برادری فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتی ہے تو فلسطینی قیادت کو بھی اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر کے ایک فعال اور نمائندہ ریاستی ڈھانچہ کھڑا کرنا ہوگا ۔ یہ لمحہ اس بات کی علامت ہے کہ عالمی سیاست میں انصاف کی آواز ابھرتی ہے، چاہے دیر سے ہو۔ برطانیہ اور کینیڈا جیسے ممالک کا فیصلہ اس بات کی علامت ہے کہ فلسطینی ریاست کا وجود اب محض عرب دنیا یا مسلم ممالک کا مطالبہ نہیں رہا بلکہ اسے ایک عالمی اصول کی حیثیت مل رہی ہے۔ یہی اصول اگر عملی اقدامات کے ساتھ جڑ جائے تو اسرائیل پر حقیقی دباو ڈالا جا سکتا ہے۔ اس معاملے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ فلسطینی عوام کو اب عالمی برادری کے صرف بیانات نہیں بلکہ تحفظ درکار ہے۔ انصاف کے تقاضے یہی کہتے ہیں کہ بے گھر فلسطینیوں کی واپسی کا حق تسلیم کیا جائے، قبضے کا خاتمہ ہو اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کو مکمل خودمختاری دی جائے۔ عالمی طاقتیں اگر واقعی انصاف کی پاسداری چاہتی ہیں تو انہیں اپنے بیانات سے آگے بڑھ کر فلسطینی عوام کے تحفظ کے لیے میدانِ عمل میں اترنا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جو عالمی نظام میں انصاف کی بالادستی کو بھی یقینی بنائے گا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here