افسوس ہوتا ہے یہ لکھتے ہوئے کہ ہم کرکٹ میں کہاں سے چلے تھے اور کہاں جاپہنچے اور جب سے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین سید محسن رضا نقوی نے بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ جھپٹا ہے۔ کرکٹ کا ستیاناس ہوچکا ہے اندازہ کیجئے جس نے کبھی کرکٹ نہ کھیلی ہو، وکٹ سے واقفیت نہ ہو، کھلاڑیوں کی نفسیات نہ سمجھے وہ شخص کیا کر گزرے گا صاف الفاظ میں کہیں گے کرکٹ کے ساتھ زنا جیسے عاصم منیر ملک اور عوام کے ساتھ زنا کر رہا ہے ان دونوں کو ڈوب مرنا چاہیئے کہ کرکٹ جو عوام کی تفریح کا ذریعہ تھا۔ اب ایسا نہیں ہے اب آئیں ذرا ہم کرکٹ کا عروج اور اسکی ناموری بتائیں اگر بہت سے نوجوان بھول چکے ہیں۔ ظاہر ہے اس چھوٹے کالم میں ہم ایک ایک کے کارنامے نہیں بتا سکتے۔ شروع کرتے ہیں پاکستان کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان عبدلحفیظ کاردار سے کاردار نے1952سے1958 تک کپتانی کی اور اپنی نگرانی میں ٹیم اور ان میں شامل کھلاڑیوں کا نام ریکارڈ بک میں آگیا۔ سب سے پہلاShock انہوں نے اوول کے میدان میں انگلینڈ کو ہرا کرکٹ ٹیم کا سر بلند کیا اس میچ کی خوبی فضل محمود تھے جنہوں نے دونوں اننگز میں چھ چھ وکٹیں لیں اور پاکستان یہ میچ جیت گیا۔ یقین کیجئے گلی گلی شور اٹھا اور لوگ فضل محمود کو دیکھنے کی تمنا کئے کراچی ایئرپورٹ پہنچے۔یہ1954کی بات ہے۔ 1957میں ٹیم ویسٹ انڈیز گئی تو سیریز ہار گئی لوگوں نے ہار کی بجائے حنیف محمد کی970منٹ کی بیٹنگ کو خراج تحسین پیش کیا یہ میچ برج ٹائون بار باڈوس میں کھیلا جارہا تھا اور حنیف محمد نے337 رن بنائے جو آج تک یہ ریکارڈ کوئی نہ توڑ سکا۔ اے ایچ کاردار پر نعیم الغنی کے بھائی جو مینجر تھے نے بھی کہا کہ میچ برابر ہو رہا تھا لیکن کاردار کو اس میں دلچسپی تھی کہ حنیف محمد ریکارڈ توڑے۔ 1962 کے انگلینڈ ٹور میں نسیم الغنی کے بالنگ تو بہترین کی ہی تھی اور جب جاوید برکی نے انہیں ٹائٹ واچ میں کے طور پر بھیجا تو وہ دوسرے دن تک وکٹ پر جمے رہے جاوید برکی کے ساتھ دونوں کی لارڈز ٹیسٹ میں197رنز کی پارٹنر شپ تھی اور دونوں نے سنچریاں بنائی تھیں۔ وہاں سے نسیم الغنی آل رائونڈ بنے یہ میچ برابر ہوگیا۔ جاوید برکی نوجوان کپتان تھے عوام نے کافی چہ مگوئیاں کیں۔ کہ وہ پہلے کپتان کے طور پر ٹیم میں لائے گئے تھے انکے والد جنرل واجد علی خان برکی تھے۔ یہ پہلا قدم تھا ٹیم میں سفارش سے کسی کو لانے کا اور اس کے بعد کے وقت کرکٹ ٹیم میں چند لوگ سفارش سے آہی جاتے تھے۔ سفارش کا یہ سلسلہ عمران خان کے دور میں رُکا اور ٹیم انڈیا میں انڈیا کو ہرا کر واپس آئی۔ ثابت ہوا کہ کپتان کو خود مختار ہونا چاہیئے اور عمران خان کو پچ سے لے کر ہر ملک کے کھلاڑی کی کمزوری کا علم تھا۔ حنیف محمد کے بڑے بھائی وزیر محمد نے بھی ایک میچ میں1957کی سیریز میں187اسکور کیا تھا۔ اس وقت ٹیم میں ایکہ تھا وہ سب پاکستان کے لئے کھیل رہے تھے اور یہ ملازمتیں کرتے تھے آج کل کی طرح ڈالروں کی بارش نہیں تھی۔ بورڈ، زرداری اور جنرل پرویز مشرف اپنے دو لوگوں کو لے کر آئے اور یہ ابتداء تھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بربادی تھی جوں جوں معاشرہ کرپٹ ہوا کھلاڑیوں میں گروپ بنے اور چیئرمین نے جس کو چاہا رکھا جس کو چاہا نکالا۔ بابراعظم مثال ہے۔ اور آج کرکٹ جس نہج پر پہنچا ہے اس میں صرف ایک اناڑی آدمی کا قصور ہے یہ بھی بتاتے چلیں جب کاردار بورڈ کے چیئرمین بنے تو بہت سے کرپٹ لوگوں نے کاردار کی کارکردگی بھلا کر ان پر نکتہ چینی کی اور انہوں نے چیئرمین شپ سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد بورڈ پر ان ہی سفارشی اور لالچی لوگوں کا قبضہ ہوتا چلا گیا۔ اندازہ کیجئے بورڈ میں اس وقت712سے زیادہ ملازم ہیں جو میزوں پر بیٹھے چائے پیتے رہتے ہیں ان میں سے کسی کو بھی پاکستان کرکٹ کا علم نہیں بہت سے کاردار، امتیاز احمد، خان محمد، حنیف محمد،نسیم الغنی کو بھی نہیں جانتے۔ ملاحظہ ہوں عہدے کرکٹ بورڈ میں سلمان نصیر چیف ایگزیکٹو آفیسر، محمد صدیق اسسٹنٹ مینجر الفناء ڈار مینجر سیل اور پارٹنر شپ اور سب سے اوپر ایک اناڑی محسن نقوی، تو آپ اس کے علاوہ کیا نتیجہ لینا چاہتے ہیں بورڈ ان سب کے لئے(CASH COW) یعنی دودھ دینے والی گائے ہے جس کے تھنوں کو چوس رہے ہیں اور یہ سب سیاست دانوں اور جنرلز کے سفارشی ہیں۔
اب آئیں دو حالیہT20میچوں میں پاکستان کی انڈیا سے ہار ٹیم میں سوائے شاہین آفریدی کے کوئی جانا پہنچانا کرکٹر نہیں ہے۔ اصول یہ ہوتا ہے ٹیم75فیصدی آزمودہ کھلاڑی رکھے جاتے ہیں لیکن محسن نقوی اپنی من مانی کر رہا ہے اور تقریباً ٹیم کا بلکہ کرکٹ کا بیڑہ غرق ہوچکا ہے۔ حارث رئوف کو ہم نے اسی میچ سے جانا، نسیم شاہ ہے مگر نہیں ہے۔
شعیب اختر نے کھل کر پوسٹ کیا ”ہم ہارے کیونکہ وہ پہلے سے مجھ سمیت پوری قوم کو پتہ تھا کہ آپ کی یہ ٹیم ایک کلب لیول سے سے بھی کمزور ہے میرا سوال ان لوگوں سے یہ ہے کہ سلمان آغا کو کس نے کپتان بنایا ہے۔ سست بلے بازی اور ناقص کپتانی اس کی اپنی ہے اس کو تو کوئی اسکول ٹیم میں بھی کپتان نہیں بنائے گا۔” فخز زمان آئوٹ تھا یا نہیں، اب ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایک دوست نے محسن نقوی کی تصویر ڈال کر لکھا: پاکستانی کرکٹ ٹیم کا خاتمہ کرنے والا مرد مجاہد۔
فخر زمان کو تیسرے ایمپائرز نے جس کمینے پن سے آئوٹ کیا اُسے ڈوب مرنا چاہیئے اور کوئی اینگل کیمرے سے ثبوت کے طور پر نہیں دکھایا۔ یہ بندہICCکا ہے اورICCپر انڈین کا راج ہے۔ دوسرے میچ میں بھی فخر زمان بغیر رن بنائے آئوٹ ہوگیا اب اسے کیا کہینگے آج بھی ہمارے پاس پرانے کرکٹر ہیں لیکن سفارشی لوگ بورڈ پر قابض ہو کر مال بنا رہے ہیں۔ وہ کسی سے مشورہ بھی نہیں لیتے جاوید میاں داد اور رمیز راجہ کسی سے بھی نہیں اور جو شامل ہیں وہ داڑھیوں میں منہ چھپائے محسن نقوی کے نیچے ہیں کچھ غلط کہا تو آئوٹ یہ پیسے کا کھیل ہے اور جاری رہے گا۔ اور کسی دعا کا اثر نہیں ہوگا کہ بے ایمان قابض ہیں۔
٭٭٭٭٭٭












