فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
203

فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! ماہ ربیع الثانی شروع ہوچکا ہے یہ حضور غوث اعظم الشیخ السیّد عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی یاد دلاتا ہے۔ کیونکہ اس ماہ مقدس کی گیارہ تاریخ کو آپ کا وصال باکمال ہوا تھا۔ ویسے تو اہل اسلام پر ماہ مقدس میں حضور غوث پاک کی یاد میں گیارہویں شریف کا انتظام دالفرام کرتے ہیں۔ لیکن اس ماہ مقدس میں خصوصی انتظامات ہوتے ہیں اور محفل کا نام بڑی گیارہویں شریف یا عرس غوث اعظم رضی اللہ عنہ ہوتا ہے۔ بہرحال دیوانے اولیاء کرام علیھم الرّضوان کا ادبُ احترام ہمیشہ کرتے ہیں صرف اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ وچنیدہ بندے سمجھ کر اللہ وحدہ لاشریک ہے۔ معبود برحق ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ حضورت غوث اعظم سرکار رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے کامل ولی تھے۔ ابھی کم سن تھے کہ والد گرامی رضی اللہ عنہ کا وصال باکمال ہوگیا والدہ ماجدہ نے بڑے صبر اور حوصلے سے کام لیا کیونکہ آپ رضی اللہ عنھا بھی اللہ تعالیٰ کی ولیہ تھیں۔ اپنے چار پانچ سالہ فرزند ارجمند پر خاص توجہ دی تربیت اور نگرانی میں کوئی کمی نہ چھوڑی اسی توجہ کا نتیجہ تھا کہ سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ ایک مثالی نوجوان صالح بنے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ابتدائی تعلیم مقامی مکتب میں حاصل کی۔ تقریباً اٹھارہ سال کم عمر میں مزید تعلیم کے لئے آپ نے بغداد شریف جانے کا ارادہ فرما لیا۔ اس مقصد کے لئے والدہ ماجدہ رضی اللہ عنھا سے اجازت طلب کی۔ آپ نے بچشم پر نم اپنے لخت جگر کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا: میرے نور بھر آپ کی جدائی تو مجھ سے ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں ہوسکتی۔ لیکن مبارک مقصد کے لئے تم بغداد جانا چاہتے ہو لہذا میں آپ کے نیک مقصد کے راستے میں حائل نہیں ہوتی حاصل علم ایک مقدس فریضہ ہے۔ میری دعا ہے کہ تم تمام علوم میں درجہ کمال حاصل کرو میں تو شاید اب جیتے جی تمہاری صورت نہ دیکھ سکوں گی۔ مگر میری دعائیں ہر حال میں تمہارے ساتھ رہیں گی۔ پھر فرمایا: تمہارے والد گرامی رضی اللہ عنہ کے ترکہ میں سے اسی دینار میرے پاس ہیں۔ چالیس دینار تمہارے بھائی کے لئے رکھتی ہں اور چالیس زاد راہ کے لئے تمہارے سپرد کرتی ہوں۔ پھر آپ کی والدہ محترم سیدہ ام الخیر فاطمہ رضی اللہ عنھا نے یہ چالیس دینار سیّدنا شیخ عبدالقادر رضی اللہ عنہ کی بغل کے نیچے ان کی گدڑی میں سی دیئے۔ جب وہ گھر سے رخصت ہونے لگے تو ان سے فرمایا: میرے پیارے بچے میری آخری نصیحت سن لو اسے کبھی نہ بھولنا۔ وہ یہ ہے کہ ہمیشہ سچ بولنا۔ جھوٹ کے نزدیک بھی نہ پھٹکنا۔ سعادت مند فرزند نے بادیدہ گریاں عرض کیا۔ امّاں جان میں سچے دل سے وعدہ کرتا ہوں کہ ہمیشہ آپ کی نصیحت پر عمل کروں گا۔ سیّدہ ام الخیر فاطمہ رضی اللہ عنھا نے اپنے نورالعین کو گلے سے لگایا اور پھر ایک آہ سرد کھینچ کر فرمایا: جائو تمہیں اللہ کے سپرد کیا۔ وہی تمہارا حافظ وناصر ہے والدہ ماجدہ سے رخصت ہو کر سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ بغداد شریف جانے والے ایک قافلہ کے ساتھ ہوئے۔ قافلہ جب ہمدان(ایران) کے آگے تر تنگ کے سنسان کوہستانی علاقے میں پہنچا تو ساٹھ قزاقوں کے ایک جتھے نے قافلے پر حملہ کردیا۔ اور اہل قافلہ کا سب مال اسباب لوٹ لیا۔ آپ رضی اللہ عنہ ایک طرف ہو کر کھڑے تھے ایک ڈاکو نے آپ رضی اللہ عنہ سے پوچھنا: اے لڑکے! تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے بلاوخوف خطر اطمینان سے جواب دیا: ہاں! میرے پاس چالیس دینار ہیں۔ آپ کی ظاہری حالت دیکھ کر ڈاکو کو آپ کی بات پر یقین نہ آیا اور وہ آپ پر ایک نگاہ استہزاو ڈالتا ہوا چلا گیا(اس لئے کہ چالیس دینار ایک بہت بڑی رقم تھی) پھر ایک دوسرے ڈاکو نے آپ سے ہی سوال کیا آپ نے اس کو بھی یہ یہی جواب دیا۔ یہ ڈاکو بھی آپ کی بات کو ہنسی میں اڑا کر چلا گیا۔ شدہ شدہ یہ بات ڈاکوئوں کے سردار، احمدبددی تک پہنچی اس نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ اُس لڑکے کو میرے پاس لائو۔ ڈاکوئوں نے آپ رضی اللہ عنہ کو پکڑ کر احمد بدوی کے سامنے پیش کیا تو اس نے آپ سے پوچھا لڑکے سچ سچ بتا تیرے پاس کیا ہے؟ آپ نے بے دھڑک جواب دیا میں پہلے بھی دو ساتھیوں کو بتا چکا ہوں کہ میرے پاس چالیس دینار ہیں۔ سردار نے کہا کہاں ہیں؟ نکال کر دکھائو۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میری بغل کے نیچے گدڑی میں پہلے ہوئے ہیں گدڑی کو ادھیڑا گیا تو واقعی چالیس دینار موجود تھے۔ سردار اور اس کے ساتھی دیکھ کر حیران رہ گئے۔
سردار نے تعجب کے عالم میں کہا: لڑکے تمہیں معلوم ہے کہ ہم ڈاکو ہیں پھر بھی تم نے دیناروں کا بھید ہم پر ظاہر کردیا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میری پاکباز والدہ نے گھر سے رخصت کرتے ہوئے مجھے نصیحت کی تھی کہ بیٹے! ہمیشہ سچ بولنا یہ سن کر سردار پر رفت طاری ہوگئی اور وہ روتے ہوئے بولا: تم نے اپنی ماں سے کئے ہوئے عہد کا اتنا پاس رکھا حیف ہے مجھ پر کہ اتنے برسوں سے اپنے خالق کا عہد توڑ رہا ہوں۔ اے بچے! آج سے میں اس کام سے توبہ کرتا ہوں دوسرے ڈاکوئوں نے بھی سردار کا ساتھ دیا۔ لوٹا ہوا تمام حال قافلے والوں کو واپس کردیا اور اس کے بعد نیکی اور پرہیز گاری کی زندگی اختیار کرلی۔
نگاہ ولی میں وہ تاثیر دیکھی۔۔۔بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی۔ اللہ پاک نے آپ کے والدین کو بھی بہت مرتبہ ومقام عطا فرمایا تھا۔ باپ حضرت سیّدابو صالح موسیٰ جنگی دوست رضی اللہ عنہ نے پانی میں چلتا ہوا کہ سیب کھایا تھا پھر اس کے عوض میں کئی سال اس باغ کی باغبانی کی اور پھر اس کے عوض معافی کے ساتھ ساتھ حضرت عبداللہ صومعی رضی اللہ عنہ نے اپنی پیاری ولیہ بیٹی کا رشتہ اللہ کے ولی آل رسول حضرت سید ابو صالح رضی اللہ عنہ کو دیا وہ بیٹی وہ تھی کہ جسے نہ کسی غیر محرم نے چھوا نہ دیکھا آئو نہ اس نے دیکھا نہ چھوا۔ نہ کوئی فحشی بات سنی نہ بولی نہ کسی غیر شرعی کام کی طرف چل کر گئی بس پھر اللہ پاک نے ولایت کے ان دو سمندروں سے غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی صورت میں ولایت کا ہیرا عطا فرمایا اللہ تعالیٰ حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here