میں ڈیوٹی پر آگیا سر ڈاکٹر محمد حمید سالم کو دوران ڈیوٹی گرفتار کیا گیا تھا۔ کل وہ جب دجالی قید سے رہا ہوئے تو اہل خانہ سے ملنے کے بعد ڈائریکٹ اسپتال پہنچ گئے اور ڈیوٹی پر حاضر۔ یاد رہے یہ وہ عظیم ہستی ہیں، جن کا ذکر ہم پچھلے سال 16 اکتوبر کو ایک پوسٹ میں کر چکے ہیں۔ ملاحظہ فرمایئے۔ میرے لال کے بال گنگریالے ہیں: ہمارے جگر کو چھلنی کرنے کے لیے “شعرہ یرلی” پھر سامنے آگیا۔ سال بیت گیا تھا اور ہم اسے بھول گئے تھے۔ آپ کو کچھ یاد ہے؟ پچھلے سال آج کی تاریخ تھی۔ خان یونس کے ناصر اسپتال کے ڈاکٹر محمد حمید سالم ابو موسی سیٹلائٹ چینلز پر نمودار ہوئے۔ ان کی اپنے سب سے چھوٹے بیٹے یوسف( 7 سال کی عمر)کو بچانے کی کوشش ناکام ہوگئی تھی، لاڈلا بیٹا شہید ہوگیا تھا مگر وہ عزم و ہمت سے دیگر زخمیوں کا آپریشن کرتے رہے۔ اس دوران ان کی اہلیہ اپنے لال کو ڈھونڈتے ہوئے اسپتال پہنچتی ہیں۔ وہ دیوانہ وار پھرتی ہیں۔ کبھی زخمیوں کے پاس اور کبھی تیمارداروں کے۔ تڑپتی ماں اپنے لخت جگر کو ڈھونڈتی پھرتی ہے اور اس کی زبان پر ایک ہی جملہ ہے: شعرہ یرلی وبیضانی وحلو “میرے لال کے بال گھنگریالے، سفید اور میٹھے ہیں” بے بس ماں کی آواز میں سارے جہان کا درد سمویا ہوا تھا کہ دیکھنے والوں کے بھی کلیجے کٹ گئے۔ اس کا یوسف اسے تڑپتا چھوڑ کر جنت پہنچ چکا تھا۔ ڈاکٹر محمد اور ان کی اہلیہ کی وجہ سے شہید یوسف کو لازوال شہرت مل گئی۔ ایک تو یہ نسل کشی کے ابتدائی دنوں میں شہید ہوگیا تھا اور پھر تھا اتنا خوبصورت کہ یوسف ثانی۔ یوسف، ابو شعر کیرلی(گنگریالے بالوں والے)کے نام سے سوشل میڈیا کا آئیکون بن گیا۔ اس پر پوسٹوں اور ویڈیوز کا تانتا بندھ گیا، ٹرینڈز بن گئے۔ پھر عرب نوجوانوں کے ایک گروپ نے اس کی زندگی اور شہادت کی کہانی پر “مصنوعی ذہانت” کی ٹیکنالوجی کے ذریعے فلم بنائی۔ جس سے ابو شعر کیرلی مغرب میں بھی مشہور ہوگیا اور ایک جہان نے اس پر آنسو بہائے۔ خاص کر مغربی خواتین۔ آج یوسف کی شہادت کو ایک سال پورا ہوگیا، اس کی غمزدہ ماں نے جگر پاش مرثیہ لکھا ہے۔ عنوان ہے: تبکی امک ہے(ماں تیرے فراق پر آنسو بہاتی ہے)ماں کے تو جگر کا ٹکڑا تھا، ادھر ہمارے اشکوں کا سیل بھی تھمنے میں نہیں آرہا۔ گویا غمزدہ ماں اسلم کولسری کی زبانی کہہ رہی ہے: سورج سرِ مژگاں ہے اندھیرے نہیں جاتے ایسے تو کبھی چھوڑ کے بیٹے نہیں جاتے تو جانبِ صحرائے عدم چل دیا تنہا بچے تو گلی میں بھی اکیلے نہیں جاتے بے حرف صداں کے وہ محرم تیرے ہمدم اسکول میں جاتے ہوئے دیکھے نہیں جاتے آنکھوں میں چمکتے ہیں ترے نقش کف پا اشکوں سے بھی یہ دیپ بجھائے نہیں جاتے جو پھول سجانا تھے مجھے تیری جبیں پر بھیگی ہوئی مٹی پہ بکھیرے نہیں جاتے جو زخم برستے ہیں میرے ذہن پر اسلم لکھنا تو بڑی بات ہے سوچے نہیں جاتے ۔
٭٭٭











