کراچی:
تحریک آزادی کے سرکردہ رہنما اورپاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا 68 واں یوم شہادت آج انتہائی عقیدت سے منایا جا رہا ہے، ۔
لیاقت علی خان نے سن 1896ء میں بھارت کے علاقے کرنال کے نواب رستم علی خان کے گھر آنکھ کھولی، انھوں نے سن 1918ء میں علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ بعد ازاں برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔
لیاقت علی خان کو زمانہ طالب علمی سے ہی برصغیر کے مسلمانوں کی دگرگوں حالات کا اندازہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے سن 1923ء میں عملی طور پر سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور1936ء میں مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔
یوں انھوں نے قائد اعظم کا دست راست بن کر مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن حصول کے لیے شب وروز کام کیا، قائد ملت لیاقت علی خان کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے بنیادی کردار کی حیثیت حاصل ہے۔ ان کا شمار پاکستان کے صف اول کے رہنماؤں اور معماران وطن میں ہوتا ہے۔
تحریک آزادی کے دوران لیاقت علی خان قدم قدم پر قائداعظم کے ساتھ رہے، انہی کی کوششوں سے 1941ء کے انتخابات میں کانگریس کے مقابلے میں مسلم لیگ کو مسلمانوں نے ووٹ دیا اور بعد ازاں ان ہی انتھک کاوشوں کے نتیجے میں 14 اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک پاکستان کے نام سے معرض وجود میں آیا۔
قائداعظم کے انتقال کے بعد لیاقت علی خان نے انتہائی تدبر سے نومولود مملکت کے فرائض انجام دیے۔ ایک موقع پر بھارت کی جانب سے جارحیت کے جواب میں خان لیاقت علی خان کے قوم کا حوصلہ بلند کرنے کےلیے ہوا میں مکا لہرایا۔ جس کو دیکھ کر دشمن کے ارادے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔
سولہ اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ عام سے خطاب کے دوران سید اکبرنامی شخص نے لیاقت علی خان پر گولیاں چلادیں۔ جس کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انھوں نے جام شہادت نوش کرلیا تھا، انہیں قائد ملت اور شہید ملت کے خطابات سے نوازا گیا۔