کراچی:
امریکن بزنس کونسل (اے بی سی) کے پرسیپشن سروے کے مطابق مالی سال 2018-19 میں نئی حکومت سیاسی اور معاشی استحکام کی بحالی کے لیے کوشاں رہی جو تبدیلی کا باعث رہا۔
سروے میں اے بی سی کے ممبروں کو مختلف معاشی ، ریگولیٹری اور سیاسی عوامل پر اظہار کرنے کے لیے کہا گیا تھا تاہم 61 فیصد رائے دینے والی کمپنیوں نے گذشتہ سال کے مقابلے میں اس مدت کو زیادہ دشوار قرار دیا۔
سروے میں کاروبار پر اثر انداز ہونے والے مختلف عوامل جیسے معیشت ، حکومتی پالیسیوں کا نفاذ اور ان کی مستقل مزاجی ، سیاسی صورتحال ، امن و امان وغیرہ کا جائزہ لیا گیا۔ معیشت اور پالیسیوں کے نفاذ کو سروے کے آدھے سے زیادہ شرکا نے غیر اطمینان بخش قرار دیا اور 75 فیصد جواب دہندگان نے بڑھتی ہوئی لاگت یعنی بجلی ، گیس وغیرہ اور ٹیکسز کو کاروبار متاثر کرنے والا سب سے بڑا چیلنج قرار دیا۔سروے کے 40 فیصد شرکا نے کہا کہ پاکستان میں کاروبار کرنا اور زیادہ مشکل ہوگیا ہے۔
ایک مثبت اشاریہ یہ ہے کہ 90 فیصد جواب دہندگان طویل مدت (2 سال سے زائد ) کے معاشی اور آپریٹنگ ماحول کے بارے میں پر اْمید ہیں اور 59 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ پاکستان کے بارے میں بین الاقوامی سطح کا تصور بہتر ہوگیا ہے۔
مالی سال 2017-18 کے مقابلے میں زیادہ بہتری ہے جب کہ 57 فیصد شرکا نے اسے ایک جیسا قرار دیا۔ سروے میں امریکی سرمایہ کاروں کے 40 فیصد سے زیادہ جواب دہندگان نے پاکستان کو قریبی مدت میں عالمی سرمایہ کاری کے منصوبوں میں شامل کیا ہے اور پاکستان کو مستقبل کی سرمایہ کاری کے لیے اولین ترجیح قرار دیا جارہا ہے۔
امریکی بزنس کونسل آف پاکستان کے صدر عدنان اسد نے کہا کہ میں ملک کے مستقبل کے بارے میں بہت پْر امید ہوں، بہت طویل عرصے کے بعد ملک کی قیادت ایک ایماندار ، پرعزم اور محنتی رہنما کے پاس ہے۔ پہلا سال بہتری پیدا کرنے والے عوامل اور پاکستان کو پٹڑی پر ڈالنے کی طرف تھا۔ تاہم، ملک کو قیمتوں میں اضافے ، مہنگائی اور انتہائی سود کی شرحوں کے ذریعے اس کی قیمت ادا کرنا پڑی۔