پاکستان میں بچوں کا اغواء اور ان بچوں سے زیادتی کے سالانہ ہزاروں واقعات ہوتے ہیں۔آئے روز بچیوں کو زیادتی کے بعد ذبیح کر دیا جاتا ہے۔ قانون میں مجرموں کو سزائیں نہ ہونے کے برابر تھیں جسکی وجہ سے مجرم دندناتے پھرتے تھے۔ پارلیمنٹ نے بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو پھانسی کی سزا کا قانون پاس کرکے مجرموں کو وارننگ دے دی ہے ، قرآن پاک میں خون کا بدلہ خون قرار دیا گیا ہے۔
پیپلز پارٹی ایک سوشلسٹ پارٹی ہے ا±سکی مخالفت تو سمجھ آتی ہے۔ اپوزیشن اور کچھ وزراءنے اعتراض کیا۔ جیسے بینظیر نے اپنے دور میں اسلامی سزاو¿ں کو وحشیانہ قرار دیا تھا اگر آج اسلامی سزائیں نافذ ہوتیں تو بینظیر کے قاتل ،قانون کی گرفت میں ہوتے۔نیلے بالوں والی ٹریکٹر ٹرالی وزیرشیریں مزاری،فراڈ چوہدری اور راجہ اشرف کو پھانسی کے قانون پر انتہائی تکلیف ہوئی ہے۔
مدینہ کی ریاست کی مثالیں دینے والے حکومتی وزراء،درندہ صفت ،سفاک مجرموں کی حمایت کر رہے ہیں جو اپنے ہی منہ پر کالک مل رہے ہیں،ہم بحیثیت مسلمان قرآن پر ایمان رکھتے ہیں۔ اسلام نے مجرموں کے لئے باو¿نڈریز طے کی ہیں، انکی مخالف قرآن کی مخالفت ہے۔
انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اسلامی سزاو¿ں کی مخالفت دراصل اللہ کے قوانین سے انخراف ہے۔
• کیا جو لوگ بچوں کو اغواءکرتے ہیں وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کرتے ہیں۔
• قاتل جب کسی کا ناحق قتل کرتا ہے تو وہ کونسی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کرتا ہے۔
• جب بچیوں کو ریپ کے بعد قتل کیا جاتا ہے -تو کیا ا±ن میں انسانی ہمدردی ہوتی ہے۔
•جب کو ئی ملاوٹ کرتا ہے ، زخیرہ اندوزی کرتا ہے، تو ا±س میں کونسی انسانیت کار فرما ہوتی ہے۔
• اس بل کی مخالفت کرنے والے مجرموں کو سپورٹ کرتے ہیں۔
• اس بل کے مخالف کرنے والے وزراءکس بنیاد پر نواز شریف خاندان کو سزاو¿ں کا مطالبہ کرتے ہیں۔
پاکستان میں لنڈے کے لبرلز، مشرف کی باقیات اور سوشلسٹوں کے پیٹ میں مروڑ ا±ٹھ رہے ہیں۔
ریاست مدینہ کے کئی وزراءمشرف دور میں ،مخلوط میراتھن کے حمایتی تھے۔کئی ماضی میں پیپلز پارٹی کا حصہ تھے۔
موم بتی مافیا کی چیخ و پکار دیکھ کر ان پر ترس آتا ہے۔ یہ مافیا غیرت سے عاری ہے۔
ہماری ساری شامیں، ہمارے دن اور رات ، ہماری عزت ، ہمارا وقار، ہماری چوھدراہٹ سبھی کچھ ،دین اسلام اور اسی وطن کیوجہ سے ہے۔ہماری زندگی کی ساری تگ و دو۔گھر بنانے ، اپنی فیملی پالنے، بچوں کا مستقبل سنوارنے میں گزرتی ہے۔ اگر ہماری فیوچر جنریشن، ہمارے بچے ان درندوں کے ہاتھوں غیر محفوظ ہوں تو ہماری ساری خوشیاں، زندگی کے سارے سلسلے ، بے وقعت اوربے مزہ ہیں ، ہم انسان اور مسلمان ہو کر کیسے برداشت کرسکتے ہیں کہ قرآن میں دی گئی سزاو¿ں کو وحشیانہ اور ظالمانہ کہیں۔ قرآنی تعلیمات کا انکار کریں۔
مسلمان ا±سے کہتے ہیں جو اللہ جل شان±ہ کے آگے اپنے آپ کو سرنڈر کردے۔ اللہ کے احکامات کو من و عن مان لے۔ نبءآخر زمان جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبءمانے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام فرامین کو دل سے قبول کرئے۔ قرآن کو ذریعہ ہدایت سمجہے۔ پورے ہمارے جو لوگ مغربی یا جمہوری معاشروں کی مثال دیتے ہیں ، میرا ا±ن سے سوال ہے کیا فلسطین اور کشمیر کے قتل عام پر انکی انسانی ہمدردی سوئی ہوئی ہے؟
جن کو میانمار ،شام اور یمن میں ناحق قتل عام پر انسانی ہمدردی نہیں۔
لنڈے کے لبرل مافیا اگر قومی اسمبلی سے پاس بل پر تلما ا±ٹھی ہے۔ٹی وی شوز میں ولگیریٹی۔ اخلاق باختہ گفتگو۔ڈراموں اور شوز میں بیہودگی، گندے ڈائیلاگ ،عجیب لباس جس میں عورت کپڑے پہن کر بھی ننگی دکھائی دیتی ہے۔یہ عوامل ہیں جومعاشرے میں جنسی کام کو شہہ دیتے ہیں، نوجوان بچوں اور بچیوں کے جذبات برانگیختہ کرتے ہیں۔
ضیاءالحق کے دور میں ٹی وی اینکر سر پر دوپٹہ لیا کرتی تھی۔ ٹی وی شوز اور ڈرامے بیہودگیوں سے پاک ہوا کرتے تھے اگر ریاست مدینہ کے آزاد خیال وزراء بچوں کے ساتھ ہونے والی وحشت پر ،پھانسی کی سزا کے بل پر چیخ رہے ہیں۔تو یہ انکا کلچر ہے۔ یہ وہ بے حیاءفاشسٹ ہیںجو شراب ،زنا، بدکاری،لوطی فعل اوربچوں کے قاتلوں کو سپورٹ کرتے ہیں۔ ان بدکاروں کا یہی گھناو¿نا چہرہ ہے۔ یہ لوگ اغیار کے وہ کتے ہیں جن کی د±م مغربی تہذیب کی دلدادہ ہے۔
مسلمانوں کی بگڑی ہوئی ،آزاد خیال نسل اور لنڈے کے ان لبرلز کو دیکھنا ہو تو یورپ اور امریکہ کے قحبہ خانوں میں دیکھ لو جہاں یہ مادر پدر آزادی میں غرق،افغانی عراقی ،فلسطینی ،شامی ،اور آزاد خیال پاکستانیوں کو دیکھ لیں جو آزادی کی رو میں بہہ کر اپنا جسم بیچنے کو عار نہیں سمجھتیں۔
قارئین! چند روز بعد ویلنٹائن ڈے کے نام پر بیہودگی پھیلائی جائے گی۔ چند بے حیا آنٹیاں حرکت میں آئینگی۔ لیکن انکے ساتھ چند ایمان فروش غیرت سے عاری مرد اور کچھ بے شرم ٹی وی اینکرز، چندانگریزوں کے پالتو لنڈے کے بدبودار،کپڑے پہن کر انسانیت سکھانے والے دانشور، پرفیوم لگا کر من میں ا±جالا نہیں کرسکتے۔ اسکے لئے کردارصاف اور اندر باہر منافقت سے پاک ہونا چاہئے۔ یہ دانشور ، ویلنٹائن ڈے کے نام پر دین اسلام پر اور علمائ پر حملے کرینگے۔ ا±نکو تنگ نظر اور جاہل قرار دیا جائے گا۔یہ ان غیرت مندوں کا ٹولہ ہے جو اپنی جوان بچیوں کو شادی سے پہلے بوائے فرینڈ کے ساتھ شامیں گزارنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔کہ ا±نکی بچییاں اپنا جیون ساتھی کی تلاش کے لئے طرح طرح کے مردوں سے اپنی راتیں رنگین کرتی ہیں۔۔ایسے گماشتے اسلامی سزاو¿ں کی ہمیشہ مخالفت ھی کرینگے۔
بچوں کے قاتل، بچیوں سے ریپ کے مجرم، ذخیرہ اندوز درندے ،مہنگائی کرنے والے انسان دشمن ،ملکی دولت لوٹنے والے قومی مجرم ،بے خوف ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ عدالتوں میں انہیں ریلیف مل جاتا ہے۔ سزائیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔جب سزا کا خوف نہ ہو تو جرم پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ آٹا اور شوگر مافیا کو معلوم ہے کہ قیمتیں بڑھانے یا مارکیٹ سے اجناس غائب کرنے کی کوئی سزا نہیں۔ اسلئے یہ لوگ دیدہ دلیری سے سمگلنگ کرتے ہیں۔ دو ٹکے کے جج بیٹھے ہیں جنہیں فرائض منصبی کا ادراک نہیں،یہی جرائم کے اصل مجرم ہیں۔ سو کالڈ مہذب اشرافیہ کے نزدیک بچوں کا ریپ کے بعد قاتلوں کو سخت سزا انسانی حقوق کی پامالی ہوگی۔ حالانکہ ایسے لوگوں کی عبرت کے لئے سزا کا ہونا ضروری ہے۔
مولاناسیدمودودی فرماتے ہیں لوگ بڑا غضب کرتے ہیں کہ اسلام کے پروگرام کی ساری تفصیل چھوڑ کر اسکی سخت سزاو¿ں پر گفتگو شروع کر دیتے ہیں،اسلام پہلے عام لوگوں میں ایمان پیدا کرتا ہے پھر عوام کے اخلاق کو پاکیزہ بناتا ہے پھر تمام تدابیر سے ایک ایسی مضبوط رائے عامہ تیار کرتا ہے جس میں اچھائیاں پھولیں، پھلیں اور برائیاں نہ پنپ سکیں پھر وہ ایسا معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام قائم کرتا ہے جس میں بدی کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہو جائے، اس کے بعد ڈنڈا وہ آخری چیز ہے جس سے ایک معاشرے میں سر اٹھانے والی ناپاکی کا قلع قمع کیا جاتا ہے، اب اس سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو ایسے برحق نظام کو بدنام کرنے کے لیے آخری چیز کو پہلی چیز قرار دیتا ہے اور بیچ کی ساری چیزوں کو نگل جاتا ہے۔
٭٭٭