قید محض!!!

0
164
سردار محمد نصراللہ

سردار محمد نصراللہ

قارئین وطن! تقریباً دو ماہ سے کچھ زیادہ دن ہو چکے ہیں کہ میں اپنی مٹی پاکستان میں قید محض میں گرفتار ہوں لیکن میرے گھر نیویارک سے ملنے و الی خبروں میںکرونا کی چیخ و پکار میں بلندی بڑھتی جا رہی ہے، ہر فون کال پر ایک ہی خبر ملتی ہے کہ حلقہ احباب میں بہت سے جاننے والے زیر زمین چلے گئے ہیں۔ انا للہ وانا علیہ راجعون۔ بقول رئیس شہر قمر بشیر ایک طویل فہرست ہے اپنے پیاروں کی اس پر علامہ تنویر قیصر کا سنایا ہوا درج ذیل شعر بڑا تکلیف دہ ہے!
ہر روز لوگ زیر زمین چلے جاتے ہیں
نہیں معلوم تہہ خاک تماشہ کیا ہے
اللہ پاک تمام شہداءکورونا کو جنت الفردوس میں جگہ عطاءفرمائے اور تمام احباب اور عزیزوں کو صبر جمیل عطاءکرے کہ ہر شخص خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے یا کسی قوم سے ہے ہم سب ایک مشکل وقت سے گزر رہے ہیں کسی کو بھی معلوم نہیں کہ اگلا فرد یا خاندان اس موذی مرض کا شکار کون ہوگا، بس اللہ سے خیر مانگیں کہ اللہ ہر ملک و قوم پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین۔
قارئین وطن! اس قید محض میں ایک کام ضرور ہوا ہے کہ میرا آئی پیڈ، میرا سب سے اچھا ساتھی بن گیا ہے اور اپنی قید کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہوا ہے میں نے۔
ایک حصہ جو صبح کے وقت کا ہے اس میں اپنے آپ کو ملک کی سیاست سے اپ ڈیٹ کرتا ہوں۔ مختلف ٹاک شوز سن کر کافی سیاست پر جان کاری ہو جاتی ہے اور روز مرہ کی حکومتی کار گزاری کا بھی پتہ چل جاتا ہے۔ وزیراعظم سے لے کر وزیروں تک اور اپوزیشن کے کرداروں کے بارے میں بھی معلوم ہوتا رہتا ہے لیکن اللہ اللہ بڑے چینلوںپر کام کرنے والے اینکرز مرد و خواتین وہ لہجہ اختیار کرتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے جیسے اصل حکمران یہی لوگ ہیں اور عمران خان کی حکومت ان کے دم خم سے ہی چل رہی ہے ان میں دو تین تو ایسے ہیں مثلاً محمد مالک، یعقوب خان، حبیب اکرم، حامد میر، شاہد مسعود، ڈاکٹر معید وغیرہ وغیرہ جن کے بس میں نہیں کہ وہ اگلے لمحہ عمران خان کی حکومت کو چلتا کریں۔ اور دوسری جانب رﺅف کلاسرا اور سہیل وڑائچ جیسے دانشور قوم کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم نے شہباز شریف کی جگہ عمران خان کو وزیراعظم منتخب کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے اور اُدھر اسٹیبلشمنٹ کی بھی پہلی ترجیح شہباز شریف ہی تھے لیکن وہ تو اس کے بھائی نوازشریف کا نعرہ ووٹ کو عزت دو، آڑے آگیا، کلاسرا اور وڑائچ کی سیاسی سوچ اور دانشوری کے بعد فیض کوثر کا شعر یاد آرہا ہے!
رہزن کو ڈھونڈتے ہیں مسافر اِدھر اُدھر
رہبر سے کارواں کی قیادت نہ ہو سکی
ہائے اللہ چوبیس کروڑ ملک والی آبادی میں رہبر کے بجائے رہزن شہباز شریف سے قوم کی قیادت بارے دیکھا جا رہا ہے ،رفیقان سیاست کچھ تو خوف کھا لیں کیوں ہم لوگ ہر روز ایک عذاب کو دعوت دیتے ہیں خدارا اس مایوسی سے نکلیں اور آتش کے اس شعر کو اپنا شعار بنائیں تاکہ قیادت کے خدو خال کو سمجھ سکیں!
سفر ہے شرط، مسافر نواز بتھیرے
ہزار ہا شعر سایہ دار راہ میں ہے
قارئین وطن! قید محض کا دوسرا حصہ کچھ کتاب پڑھ کر ہوتا ہے، میں اپنے انٹرنیشنل افیئرز کے مینٹور ہنری کسنجر کی امریکن فارن پالیسی پڑھ رہا ہوں اور جب تھک جاتا ہوں تو ٹرکش اور بھارتی سیریل فلمیں اور ڈرامے دیکھتا ہوں۔ آج کل انگلش سیریز کولیٹرل دیکھ رہا ہوں۔ پچھلے دنوں آئرش مین، دیکھی ،آئریش مین تو ماریو پوزو کی گاڈ فادر سے ملتی جلتی فلم تھی، بڑا اچھا ٹائم پاس ہو جاتا ہے اور کورونا کے پھیلائے ہوئے دکھوں اور غموں کو بھول جاتا ہوں لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ کورونا کا دیا غم لوگ صدیوں تک نہیں بھولیں گے۔ اب شام ہوتی جاتی ہے اور قید محض کا تیسرا حصہ شروع ہوا چاہتاہے جب میرا گھر نیویارک کا گھڑیال 9 بجاتا ہے صبح کے اور میرے ملک پاکستان میں شام کے 6 بجتے ہیں۔
پہلی فون کال محترم میر مزمل کی ہوتی ہے ان کی اچھی بات یہ ہے کہ مذاق سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں پھر کورونا وائرس سے دم گھٹ کے مرنے والوں کی، پھر کاروباری اور دفتری معاملات کے بعد وہ کورونا کورونا کی آواز پر فون بند کر دیتے ہیں۔ پھر میں اپنی زندگی کی شباب کو فون کرتا ہوں اس کو اپنے زندہ ہونے کا احساس دلاتا ہوں لب و رُخسار کی میٹھی میٹھی باتوں کے بعد اپنے پیاروں، بچوں بیٹا اور پوتوں اور ان کی دادی سے گپ شپ مار کر ابھی فون ختم کرتا ہی ہوں تو راشد لودھی ایڈووکیٹ، توصیف بھٹی ایڈووکیٹ، نواب زادہ میاں ذاکر نسیم، گوہر علی خان کورونا کے خوف کو مارنے کیلئے جمع ہو جاتے ہیں اور مشروب شام سے اس زہر کو مارنے بھگانے کی جدوجہد میں مصروف ہو جاتے ہیں شاہد وٹو کا ایک ہی کام ہوتا ہے کہ نیسلے کے پانی کی بنائی ہوئی برف کی سپلائی جاری رہے جب قید محض اپنے اختتام کو پہنچتی ہے میرے یہاں شب کے گیارہ بج رہے ہوتے ہیں تو میاں بل گیٹ کا فون آتا ہے میری خیریت دریافت کرتے ہیں اور اپنی خیریت بتا کر میرے تمام دن کے معاملات کا حساب کتاب لیتے ہیں ابھی ان کا فون بند کیا تو ثمر جیلانی کا فون آگیا بھائی کے لہجہ کو زندہ کئے رکھے ہیں مجھ سے چار ہاتھ آگے پاکستانی ٹی وی اینکروں کو بُری بھلی سناتے ہیں کہ وہ ان کے محبوب رہنما عمران خان کی حکومت میں خامیاں نکالتے ہیں بس ان کی باتیں سنتے سنتے میری نیند سب لائنیں کاٹ دیتی ہیں اور صبح بخیر کی آمد سحر میں سو جاتا ہوں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here