”آلااشتیاق حسین قریشی …. ہیوسٹن کی جان“

0
154
شمیم سیّد
شمیم سیّد

شمیم سیّد،
ابھی پچھلے ہفتہ کی ہی بات ہے کہ میں اپنی والدہ کے غم کو ہی نہیں بُھلا پا رہا تھا کہ آج مجھے اپنے ایک شفیق و مہربان باپ کی طرح ہمیشہ نصیحت و محبت سے پیش آنےو الے ہیوسٹن کی ایک نہایت ہی ادبی، مذہبی اور خوبصورت شخصیت جن کا پورا ہیوسٹن معترف تھا اشتیاق حسین قریشی اس دار فانی سے کُوچ کر گئے، اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کے درجات کس طرح بُلند کرتا ہے اس کی بڑی مثال اشتیاق قریشی کی ہے پچھلے دنوں دل کے عارضہ کی وجہ سے ہسپتال میں داخل تھے اور بہتری کی طرف جا رہے تھے کہ ظالم کورونا وائرس نے جکڑ لیا میں تو یہ کہوں گا کہ ان کو شہید کا درجہ دینے کیلئے کرونا نے ان کا کام آسان کر دیا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے اللہ کو پیارے ہو گئے ۔پورے ہیوسٹن میں ان کے انتقال کی خبر آگ کی طرح پھیل گئی اور بد نصیبی دیکھئے کہ لوگوںتو افسوس کر رہے ہیں کہ ہم ان کی مٹی میں بھی شریک نہیں ہو سکتے اگر یہ حالات نہ ہوتے تو ہیوسٹن کا بہت ہی بڑا جنازہ ہوتا کیونکہ ان کا کسی کےساتھ اختلاف نہیں تھا اپنی عملی بصیرت سے انہوں نے تمام لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا تھا۔ بولنے کا فن بھی خوب جانتے تھے کیونکہ پڑھے لکھے تھے کراچی یونیورسٹی سے ماسٹر کیا، فلپائن سے قانون کی تعلیم حاصل کی، پی آئی اے میں لیگل ڈیپارٹمنٹ میں جنرل منیجر کے عہدے پر فائز رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ہیوسٹن آتے جاتے تھے اور 1990ءمیں ہیوسٹن میں مستقل سکونت اختیار کر لی، آپ رضا کارانہ طور پر مختلف مساجد میں امامت کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ جمعہ اور عیدین کی نمازوں کے علاوہ نکاح خوانی کی خدمات بھی انجام دیتے رہے ،آپ نہایت شفیق، ہمدرد اور مخلص انسان تھے مکہ مسجد ساﺅتھ ڈیری آشفورڈ کی جان تھے، ہمیشہ بچوں کے پروگراموں میں وہ جس طرح بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے وہ کبھی نہیں بھلائی جا سکتی۔ دین اسلام اور اسلامی تاریخ کے وسیع مطالعے کے علاوہ شاعری کی تمام اصناف پر مکمل گرفت رکھتے تھے اور استادوں میں ان کا شمار ہوتا تھا کیونکہ اجمیر شریف کی پیدائش 1943ءتھی تو پھر وہاں کی محبت کیوں نہ ہوتی مخدوم اشرف جہانگیر سمنانیؒ کے سلسلہ اشرفیہ سے منسلک تھے۔ پیرو مرشد سید مدنی میاںؒ کے خلیفہ بھی تھے۔ ماشاءاللہ وہ عام مولویوں کی طرح نہیں تھے وہ بڑے خوش لباس بھی تھے۔ کوٹ اور ٹائی بھی پہنتے تھے ،میری ان سے پہلی ملاقات ای کے پروفیوم کے افتخار چشتی کے ہارویں پر واقع پرفیوم کے آفس میں ہوئی تھی اور زیادہ تر وہیں ان کی بیٹھک تھی افتخار چشتی ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں تو ان کو بہت ہی زیادہ یاد رکھوں گا کیونکہ وہ ہمیشہ جب میں بھی کوئی کالم لکھتا تھا جس میں منافرت اور مسلکی جھگڑوں، چاند کے مسئلے سے بچ کر تمام مسلمانوں کویکجا کرنے کی بات لکھتا تھا تو وہ سب سے پہلے مجھے فون کر کے مبارکباد دیتے تھے کہ شمیم میاں اللہ تعالیٰ تمہیں زندگی اور صحت دے اور تمہارے قلم سے حق ہی نکلتا ہے اور ہمیشہ حق بات لکھنے سے گریز نہ کیا کرو مجھے ہمیشہ سید بادشاہ کہا کرتے تھے۔ اب ایک ایک کر کے میرے وہ چاہنے والے میرے لئے دعائیں کرنے والے جاتے جا رہے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے زبرگوں کا سایہ ہمیشہ سلامت نہیں رکھتا تمام مکاتب فکر کے علماءاکرام ان کی بڑی عزت کرتے تھے اور کرتے رہیں گے۔ سفید عربی لباس میں پیلے رنگ کا عمامہ پہنے ہوئے لگتے تھے کہ کوئی بزرگ آگیا ہے اور لوگ جس محبت کےساتھ ان سے پیار کرتے تھے وہ دیکھنے والا تھا اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔ آپ کے سوگواران میں بیوہ، تین بیٹے اور دو بیٹیاں اور بے شمار عقیدتمند شامل ہیں اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کو صبر جمیل عطاءفرمائے۔ نماز جنازہ میں شرکت نہیں ہو سکتی اس لئے ان کیلئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں کہ اللہ ان کی قبر کو اپنے نور سے بھر دے۔ آمین۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here